یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
قبرستان
مکمل کتاب : تجلیات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=3016
تاجدار دو عالم نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قبر کے پاس بیٹھ کر فرمایا۔ قبر روزانہ انتہائی بھیانک آوازمیں پکارتی ہے، اے آدم کی اولاد! کیا تو مجھے بھول گئی؟ میں تنہائی کا گھر ہوں، میں اجنبیت اور وحشت کا مقام ہوں، میں کیڑے مکوڑوں کا مکان ہوں، تنگی اور مصیبت کی جگہ ہوں۔ ان خوش نصیبوں کے علاوہ جن کے لئے خدا مجھ کو کشادہ اور وسیع کر دے، میں سارے انسانوں کے لئے ایسا ہی تکلیف دہ ہوں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ’’قبر یا تو جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ۔‘‘
ایک بار حضرت علیؓ قبرستان میں تشریف لے گئے۔ ان کے ساتھ حضرت کمیلؓ بھی تھے۔ قبرستان پہنچ کر آپؓ نے ایک نظر قبروں پر ڈالی اور پھر قبر والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ ’’اے قبر میں بسنے والو! اے کھنڈروں میں رہنے والو! اے وحشت اور تنہائی میں رہنے والو! کہو تمہاری کیا خبر ہے؟ہمارا حال تو یہ ہے کہ مال تقسیم کر لئے گئے، اولادیں یتیم ہو گئیں، بیویوں نے دوسرے خاوند کر لئے۔ یہ تو ہمارا حال ہے۔ اب تم بھی تو اپنی کچھ خبر سناؤ۔‘‘ پھر آپ کچھ دیر خاموش رہے، اس کے بعد حضرت کمیلؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا۔
’’کمیل! اگر ان قبروں کے باشندوں کو بولنے کی اجازت ہوتی تو یہ کہتے کہ بہترین توشہ پرہیز گاری ہے۔‘‘
یہ کہہ کر حضرت علیؓ رونے لگے اور دیر تک روتے رہے۔ پھر بولے۔ ’’کمیل! قبر عمل کا صندوق ہے اور موت ہے اور موت کے وقت ہی یہ بات معلوم ہو جاتی ہے۔‘‘
موجودہ زمانہ میں یہ بات عام ہوتی جا رہی ہے کہ لوگ قبرستان میں سگریٹیں پیتے ہیں۔ لاپروا لوگوں کی طرح ہنسی مذاق کرتے ہیں، دنیا اور لوازمات دنیا کی باتیں کرتے ہیں جبکہ قبر آخرت کا دروازہ ہے۔ اس دروازہ کو دیکھ کر آخرت کی فکر کیجئے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 144 تا 145
یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔