قانون
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9359
کائنات میں بےشمار نَوعیں ہیں۔ ہر نَوع اور ہر نَوع کاہر فرد نَوعی اور اِنفرادی حیثیت سے خیالات کی لہروں کے ذریعے ایک دوسرے سے مسلسل اور پیہم ربط رکھتے ہیں اور یہ مسلسل اور پیہم ربط ہی افرادِ کائنات کے درمیان تعارف کا سبب ہے۔ خیالات کی یہ لہریں دراصل اِنفرادی اور اِجتماعی اِطلاعات ہیں جو ہر لمحہ، ہر آن کائنات کے افراد کو زندگی سے قریب کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری پوری زندگی خیالات کے دوش پر سفر کرتی ہے اور خیالات کی کار فرمائی یقین اور شک پر قائم ہے۔ یہی نقطۂِ آغاز مذہب کی بنیاد ہے۔
آدمی زندگی کے مراحل وقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں طے کرتا ہے اور زندگی بسر کرنے کیلئے ذہن میں وقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑتا ہے اور ان ہی ٹکڑوں سے کام لیتا ہے۔ ہم یا تو وقت کے اس ٹکرے سے آگے مسلسل دوسرے ٹکڑے پر آ جاتے ہیں یا وقت کے اس ٹکڑے سے پلٹتے ہیں۔ اس کو اس طرح سمجھنا چاہئے کہ آدمی ابھی سوچتا ہے کہ میں کھانا کھاؤں گا۔ لیکن اس کے پیٹ میں گِرانی ہے۔ اس لئے وہ یہ اِرادہ ترک کر دیتا ہے۔ وہ کب تک اس ترک پر قائم رہے گا، اِس بارے میں اسے معلوم نہیں۔ علیٰ ہذالقیاس اس کی زندگی کے اجزاءِ تر کیبی یہی افکار ہیں جو اسے ناکام یا کامیاب بناتے ہیں۔ ابھی وہ ایک اِرادہ کرتا ہے، پھر اسے ترک کر دیتا ہے۔ چاہے منٹوں میں ترک کرتاہے، چاہے گھنٹوں میں، چاہے مہینوں میں، چاہے سالوں میں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ ’’ترک‘‘ آدمی کی زندگی کا جُزوِ اَعظم ہے۔
بہت سی باتیں ہیں جن کو دشواری، مشکل، پریشانی، بیماری، بے زاری، بے عمَلی، بے چینی وغیرہ وغیرہ کہتا ہے۔ اب دوسری طرف وہ ایک چیز کا نام رکھتا ہے ’’سکون‘‘۔ یہی وہ سکون ہے جس میں وہ ہر قسم کی آسانیاں تلاش کرتا ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سب حقیقی ہیں، بلکہ ان میں زیادہ تر مَفروضات ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو انسان کو آسان معلوم ہوتی ہیں اور یہی رُحجان ہے جو اُسے آسانیوں کی طرف مائل کرتا ہے۔ دراصل انسان کے دماغ کی ساخت ہی ایسی ہے کہ وہ آسانیوں کی طرف دَوڑتا ہے ہر مشکل سے بھا گتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دو سمتیں ہیں۔ اِن دو سمتوں میں آدمی اَفکار کے ذریعے زندگی گزارتا ہے۔ اس کی ہر حرکت کا منبع ان دو سمتوں میں سے ایک سمت ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ابھی ہم نے ایک تدبیر کی۔ اُس وقت جب ہم اُس تدبیر کی تنظیم کر رہے تھے، وہ ہر طرح مکمل تھی اور اس کی سمت بھی صحیح تھی، لیکن صرف چند قدم چلنے کے بعد ہمارے ذہن میں تبدیلی ہوئی۔ تبدیلی ہوتے ہی افکار کا رُخ بدل گیا، نتیجہ میں سمت بھی تبدیل ہوگئی۔ اب ہم جس منزل کی طرف رَواں دَواں تھے، وہ منزل غَیب میں چلی گئی اور ہمارے پاس کیا رہا؟
ٹٹولنا اور ٹٹول کر قدم اُٹھانا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک کروڑ آدمیوں میں صرف ایک آدمی ایک قدم اٹھاتا ہے جو صحیح سمت میں اٹھتا ہے اور پیچھے نہیں ہٹتا۔ واضح رہے کہ یہ تذکرہ یقین اور شک کی درمیانی راہوں کا ہے۔ اب رہی اکثریت کی بات تو اس کے دماغ کا محور وہم اور شک پر ہے۔ یہی وہ وہم اور شک ہے جو اس کے دماغ کے خلیوں میں ہمہ وقت عمَل کرتا رہتا ہے۔ جس قدر اس میں شک کی زیادتی ہوگی، اُسی قدر دماغی خلیوں (Cells) میں ٹُوٹ پُھوٹ واقع ہو گی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہی وہ دماغی خلیے ہیں جن کے زیرِ اثرتمام اَعصاب کام کرتے ہیں اور اَعصاب کی تحریکات ہی زندگی ہیں۔ کسی چیز پر انسان کا یقین کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا فریب کو جھٹلانا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ انسان جو کچھ ہے، خود کو اُس کے خلاف پیش کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی کمزوریوں کو چھپاتا ہے اور ان کی جگہ مَفروضہ خوبیاں بیان کرتا ہے جو اس کے اندر مَوجود نہیں ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 119 تا 121
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔