فلم اور سینما
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26559
پروجیکٹر سے لہریں نکلتی ہیں جو محسوس ہوتی ہیں اور نظر بھی آتی ہیں لیکن ان لہروں کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں کوئی معنی پیدا نہیں ہوتے، سینما میں بیٹھے ہوئے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پشت کی جانب سے روشنیوں، لہروں یا شعاعوں کی ایک دھار چلی آرہی ہے اور یہ لہریں یا شعاعیں پردے پر جا کر ٹکرا رہی ہیں۔ جب یہ لہریں یا شعاعیں پردے پر جا کر ٹکراتی ہیں تو وہاں ہمیں مختلف صورتیں، مختلف شکلیں اور مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔
ہم ان لہروں کو خیال سے تشبیہہ دے سکتے ہیں اور لہروں کے ٹکرانے کے عمل کو علم سے منسوب کر سکتے ہیں۔ پردے یا اسکرین سے لہروں کے ٹکرانے کے بعد جو صورتیں اور جو رنگ جلوہ گر ہوتے ہیں انہیں معنی ومفہوم کہہ سکتے ہیں۔ تجربہ اور مشاہدہ سے ہمیں یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ خیال جب تک کسی اسکرین پر ٹکرا کر اپنا مظاہرہ نہ کرے اس وقت تک کسی علم میں، معنی اورمفہوم پیدا نہیں ہوتے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 319 تا 319
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔