فضائلِ اِخلاق
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=20069
نبوت کا سلسلہ حضرت آدم ؑ سے شروع ہو ااور رسالت اورنبوت کا اختتام حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوگیا۔
آسمانی کتابوں اور صحائف میں اس بات کو مسلسل دہرایاجاتارہا ہے کہ ایک خیرالبشر آئے گا اور آسمانی علوم کے مطابق تکمیلِ دین کا اعلان کرے گا ۔حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے فرستادہ آخری نبی ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپردین کی تکمیل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خوش ہوکر اپنی نعمتیں پوری فرمادیں ۔
*آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجاگیاہوں ‘‘
آپ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’میں اس لئے بھیجاگیا ہوں کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل ہوجائے‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت ِ نبوی سے پہلے ہی اس فرض کو انجام دینا شروع کردیا تھا۔
ابو ذر ؓ نے اپنے بھائی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اورتعلیمات کی تحقیق کے لئے مکہ بھیجا تھا۔انہوں نے واپس آکر اپنے بھائی کو بتایا :
’’میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کواخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہیں ‘‘
نجاشی نے جب مسلمانوں کو بلاکراسلام کے بارے میں تحقیق کی توحضرت جعفر طیارؓ نے کہا:
’’اے بادشاہ!ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے بتوں کو پوجتے تھے،مردار کھاتے تھے ، بد کاریاں کرتے تھے ،پڑوسیوں کو تنگ وپریشان کرتے تھے اوربھائی بھائی پرظلم کرتاتھا زبردست زیردستوں کو غلام بنالیتے تھے ان حالات میں ایک شخص ہم میں پید ا ہوا․․․․․․․․اس نے ہمیں سکھایاکہ ہم پتھروں کی پرستش چھوڑ دیں سچ بولیں خونریزیوں سے باز آجائیں ۔ یتیموں کا مال نہ کھائیں ۔ہمسائیوں سے اچھا سلوک کریں،ضعیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں ‘‘
اسی طرح قیصر روم کے دربارمیں ابوسفیان نے جوابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاحی دعوت کا جو مختصر خاکہ بیان کیا اس میں یہ تسلیم کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی توحید اور عبادت کے ساتھ لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ پاک دامنی اختیارکریں ۔سچ بولیں اورقرابت داروں کا حق ادا کریں ۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کہا :
’’یہ پیغمبر جاہل اور ان پڑھ لوگوں کوپاک وصاف کرتاہے اوران کو حکمت سکھاتاہے ‘‘
اس آیت میں دو لفظ بہت زیادہ تفکر طلب ہیں ۔
۱) تزکیہ ۲) حکمت
تزکیہ کے لفظی معنی ہیں ․․․․․․․․․․․پاک صاف کرنا ،نکھارنا ․․․․․!!
قرآن پاک کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ نفس انسانی کو ہر قسم کی نجاستوں اور آلودگیوں سے پاک کرکے صاف ستھر اکیا جائے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’بلاشبہ جس نے اپنے نفس کو صاف ستھرا بنایا وہ کامیا ب ہوا جس نے اسے مٹی میں ملایا وہ ناکام رہا ‘‘
(سورۃ شمس۔ آیت:۹تا۱۰)
’’وہ جیتا جس نے اپنے آپ کوپاک صاف کیا اور نماز پڑھی‘‘ (سورۃ اعلیٰ۔ آیت : ۱۴تا۱۵)
’’پیغمبر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے تیوری چڑھائی اور منہ موڑا،کہ اس کے پاس اندھا آئے ……اور تجھے کیا خبر ہے شاید وہ سنورجاتا تو تیرا سمجھانااس کے کام آتا‘‘
(سورۃ عبس۔ آیت ۱تا۴)
ان آیاتِ میں تزکیہ کا مفہوم واضح ہے جسے پیغمبرِ اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات قرار دیا ہے۔یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ور سالت کا سب سے بڑا منصب یہ تھا کہ وہ انسانی نفوس کو برائیوں ، نجاستوں اور آلودگیوں سے پاک کرے،اور ان کے اخلاق واعمال کو درست اور صاف ستھرا بنائے۔
(۲) *حکمت کا لفظ نور کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ودیعت کیا گیا ہے ۔ جس کے آثار
ومظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنن و احکام کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ اور ہم نے لقمان کو حکمت کی باتیں بتائیں کہ خدا کا شکر ادا کریں‘‘
(سورۃلقمان۔آیت:۱۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں اخلاق کے مرتبے کو حکمت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔اسلام میں عبادات اور دوسرے احکام کو جو حیثیت حاصل ہے ، اخلاق کو بھی اتنی اہمیت حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے ایمان والو! رکوع کرو، سجدہ کرواپنے رب کو پوجو اور نیکی کرو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘
(سورۃ الحج۔آیت۔۱۰)
* سیرت النبی ۶
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 44 تا 46
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔