فر شتوں کی کئی قسمیں ہیں
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=21987
ملائکہ نورانی،ملاءِ اعلیٰ،ملائکہ سماوی،ملائکہ عنصری،ملاءِ رضوان ، ز ما نیا ، فرشتے کراماً کاتبین۔
شخص اکبر:
کا ئنا ت میں ممتا ز مخلو ق فر شتے اور جنا ت ہیں اور ان سب میں ممتا ز مخلوق انسان ہے۔ فرشتے کی تخلیق نو ر سے جنات کی تخلیق نا ر سے اور انسان کی تخلیق مٹی ،خلاء اور گیس سے ہوئی ہے۔ کا ئنا ت کی مر کزی قوت جہاں سے EVENTSظاہر ہو تے ہیں اور جہاں ہرچیز لو ٹ کر جا تی ہے وہ تجلی ٔ اعظم کا دوسرا درجہ ہے جو عر ش پر قا ئم ہے۔ تمام مخلوقا ت پر عرش محیط ہے یعنی عر ش کا کوئی حصہ اور کوئی چیز تجلی سے با ہر نہیں ہے۔اس ممتاز جگہ سے زمین کی طر ف نو ر کی لہر یں نز ول کر رہی ہیں۔ عرش کے نیچے پوری انسانیت کا ایک ہیو لہ ہے جسکو شخص اکبر یاانسان اکبر کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلا ح صو فیاء کی قا ئم کر دہ ہے۔نوعِانسانی کا شخصِ اکبر کے ساتھ ایسا تعلق ہے کہ وہ شخص اکبر کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی…… نوعِ انسانی کی تمام زندگی شخص اکبر سے متحرک ہے۔
حیو انا ت کی ہر نو ع کا ایک شخص اکبر بھی وہاں مو جو د ہے اورہر نو ع کے ہرفر د کا اپنے اپنے شخص اکبر سے تعلق ہے۔ یہ تعلق فر شتوں کے INSPIRATIONکے ذریعے قا ئم ہے. جس طر ح زمین کا ہرذرّہ کشش ثقل میں بند ھا ہوا ہے۔
*رضوان ۔ جنت کے منتظمین فرشتے
اﷲتعالیٰ فر ما تے ہیں وہ فر شتے جو عر ش کو تھا مے ہوئے ہیں اور وہ فر شتے جو اس کے اردگر د ہیں وہ سب
* رضوان: جنت کے منتظمین فرشتے، * زمانیا: دوزخ کے منتظمین فرشتے
اﷲ کی حمد و تسبیح کر تے ہیں اور اﷲ کا حکم ما ننے کے لیے اپنے آپ کو ہردم تیا ر رکھتے ہیں اور ایما ن والے لوگوں کیلئے دعا ما نگتے ہیں۔
’’اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر ایک چیز پر حا وی ہے ان لو گوں کو جو تیری طر ف متوجہ ہوئے اور تیرے راستے پر چلے، ان کی غلطیاں بخش دے اور انہیں دوزخ کے عذاب سے محفو ظ کر دے۔ اے ہما رے پر وردگا ر انہیں ان با غوں میں داخل کر جن میں وہ ہمیشہ رہیں جن کا تو نے ان سے وعدہ فر مایا ہے۔ اور ان کے ساتھ ان کے باپ دادا کو، بیویوں کو اور بچوں کو بھی ہمیشگی کے با غوں میں داخل کر تو بہت عزت دینے والا اور دانائی بخشنے والا ہے۔کم ازکم یہ کہ انہیں تکلیف سے بچا۔واقعی اس روز جو تکلیف سے بچ گیا اس پر تیری بڑی رحمت ہے اور پوری کا میا بی ہے‘‘ (سورۂ مومن آیت نمبر۷تا۹)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 113 تا 114
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔