یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
عید
مکمل کتاب : تجلیات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=3048
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر واللہ الحمد
ہجرت کے بعد جب رسول اللہﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ دو مخصوص دن تفریح کیا کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا ‘‘یہ دو روز کیا ہیں’’
اہلِ مدینہ نے عرض کیا ‘‘یا رسول اللہﷺ ! زمانہ جاہلیت کے وقت ہم ان دنوں میں کھیل کود اور تفریح کرتے تھے’’
آنحضرت ﷺ نے فرمایا ‘‘اے اہلِ یثرب! اللہ تعالیٰ نے تم کو ان دو دنوں کی بجائے ان سے بہت اعلیٰ و ارفع دن عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے عطا کئے ہیں’’ ۔ اور فرمایا کہ جب عید کا دن ہوتا ہے تو فرشتے عید گاہ کے راستے میں انتظار کرتے ہیں اور پکارتے ہیں :
اے مسلمانوں کے گروہ! چلو اپنے ربِ کریم کی طرف جو احسان کرتا ہے ، بھلائی کے ساتھ اور اجر فرماتا ہے اور تم کو رات کو عبادت کرنے کا حُکم دیا گیا۔ پس تم نے قیام کیا اورتم کو روزےرکھنے کا فرمان جاری کیا، پس تم نے روزے رکھے اور اپنے ربِّ کریم کی اطاعت کی ۔ اب تم انعام حاصل کرو’’
اور جب نمازی عید کی نماز سے فارغ ہو جاتے ہیں تو ملائکہ اعلان کرتے ہیں :
‘‘آگاہ ہو جاو! بے شک تمہارے رب نے تمہیں اجر عطا فرمایا اور تم آئے اپنے گھر کی طرف کامیاب ہو کر’’
عیدالفطر ایک اعلیٰ و ارفع پروگرام کی کامیابی کی خوشی منانے کا دن ہے۔ ربِ کریم کا کرم ہے کہ اس نے اپنے حبیب پاکﷺ کے صدقے میں ماہِ شوال کی پہلی تاریخ کو دُنیا و آخرت کی لازوال اور بے کراں مسرتوں اور نعمتوں سے ہم کنار فرمایا ۔ جب کہ اسی شوال کے مہینے میں سابقہ امتوں کی نافرمانیوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ ماہِ شوال کی پہلی تاریخ بروز شنبہ قومِ نوح غرقاب ہوئی۔ جس دن قومِ لوط پر عذاب آیا اس روز بھی شوال کی پہلی تاریخ تھی۔ فرعون اپنے لشکر سمیت سہ شنبہ کو دریا میں غرق ہوا اور یہ بھی شوال کی پہلی تاریخ تھی۔ قومِ عاد چہار شنبہ کو ہلاک ہوئی۔ اس روز بھی شوال کی پہلی تاریخ تھی۔ قومِ صالح پر پنجشنبہ کو عذاب نازل ہوا اور یہ مہینہ شوال کا تھا۔
—
عیدالفطر کا دن تھا۔ صبح سویرے تمام مسلمان اپنے مقدس تہوار کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ مسرت و شادمانی کی فضا مدینہ پر چھائی ہوئی تھی۔ عید کی نماز کا وقت جیسے جیسے قریب آ رہا تھا ، بوڑھے اور جوان اپنے عمدہ ترین لباس میں ملبوس میں ملبوس عید گاہ کی جانب گامزن تھے۔ بچے اپنے بزرگوں کے نزدیک عید گاہ کے میدان میں کھیل رہے تھے۔ فضا خوشبودار لباس ، معطر رُومالوں اور بچوں کی آوازوں سے رُوح پرور، فرحت انگیز اور دل کش تھی۔ عید کی نماز ختم ہوئی۔ لڑکے اُچھلتے کودتے ، شاداں و فرحان اپنے اپنے گھروں کی جانب واپس ہونے لگےنبی مکرم علیہ الصلوۃ والسلام نے واپسی کا قصد فرمایا تو اچانک آنحضرت ﷺ نے میدان کے ایک گوشے میں تن تنہا، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک نحیف و نزار، کمزور و ناتواں لڑکے کو دیکھا جو رو رہا تھا۔ نبی مکرمﷺ فورا اس لڑکے کے قریب پہنچے ۔ شفقت و محبت اور بڑی ملائمیت سے لڑکے کے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ‘‘میرے بچے ! تُم کیوں رو رہے ہو’’
لڑکے نے غصے سے آنحضرت ﷺ کا ہاتھ جھٹک دیا اور کہا ‘‘خدا کے واسطے مجھے تنہا چھوڑ دو’’
حضورﷺ نے اس کے بالوں میں شفقت سے اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے فرمایا ‘‘لیکن میرے بچے! مجھے بتاو تو سہی آخرتمہارے ساتھ ہوا کیا ہے؟’’
لڑکے نے اپنے سر کو گھٹنوں میں چھُپا کر سسکیاں لیتے ہوئے کہا ‘‘ پیغمبرِ اسلام کی ایک جنگ میں میرا باپ ہلاک ہو چکا ہے۔ میری ماں نے دوسری شادی کر لی ہے اور اس کے نئے شوہر نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ میری جائداد بھی دوسروں نے چھین لی ہے ۔ آج سب لڑکے نئے نئے جوڑے پہن کر خوشی سے ناچ رہے ہیں ، کھیل رہے ہیں اور میرے پاس نہ کھانے کی کوئی چیز ہے اور نہ پہننے کو کوئی کپڑا۔۔ اور نہ پناہ لینے کو کوئی سایہ ۔۔ ’’
لڑکے کی افسوسناک داستان سُن کر حضور ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، مگر آپ نے مسکرا کر فرمایا ‘‘اگر میں تمہارا باپ ہو جاوں اور عائشہ تمہاری ماں اور فاطمہ تمہاری بہن ، تو میرے بچے کیا تم خوش ہو جاو گے؟’’
لڑکے نے فوراََ اثبات میں سر ہلا دیا اور آنحضرت ﷺ اس کو اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہہ کو آواز دی اور فرمایا ‘‘دیکھو! یہ تمہارا بیٹا ہے’’
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہہ نے اپنے ہاتھوں سے بچے کو نہلایا، نیا کپڑا پہنایا اور کھانا کھلانے کے بعد کہا ‘‘بیٹے ! اب تم باہر جاو، دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلو جا کر ۔۔ مگر دیکھو، تھوڑی دیر کے بعد گھر واپس آ جانا’’
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 217 تا 220
یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔