عورت مرد کا لباس

مکمل کتاب : اسم اعظم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=765

کوئی نظام اس ہی وقت نظام کا درجہ پاتا ہے جب اس کی بنیادیں مستحکم ہوں اور اس نظام کو چلانے والے اس کی حفاظت میں کمر بستہ رہیں۔ زمین پر آدم و حوا کے وجود کے ابتدائی مرحلہ سے لاکھوں سال بعد تک معاشرتی نظام قائم ہے۔ جیسے جیسے شعوری ارتقاء ہوتا رہا۔معاشرے کی بنیادیں تو وہی ہیں لیکن ضرورت کے مطابق اصلاح و تجدید ہوتی رہی۔ آدمؑ و حواؑ جنت سے جب زمین پر آئے تھے اسی وقت سترپوشی کا نظام قائم ہو گیا تھا۔ زمین پر آدمؑ و حوا کی نسل بڑھی تو زندہ رہنے کے وسائل کی پیداوار اور تقسیم کا عمل شروع ہوا۔ پھر یہ معاشرہ ایک عورت اور مرد کی حسن تدبیر سے خاندان، قبائل، قوم اور ملک کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔
زندہ رہنے اور حیوانات سے ممتاز ہونے کے لئے آدمؑ نے (اپنے علم سے جو اسے یوم ازل میں منتقل ہو چکا تھا) قوانین بنائے۔ ہابیل، قابیل دونوں بھائیوں میں سے ایک بھائی نے جب اپنے باپ آدمؑ کے بنائے ہوئے قانون کو ضد، ہٹ دھرمی اور اپنی انا سے توڑ ڈالا تو زمین پر پہلا قتل ہوا یعنی قانون توڑنے کا پہلا ردعمل اولاد آدمؑ کے سامنے قتل کی صورت میں ظاہر ہوا۔
آدمؑ نے اپنے پیغمبرانہ علم کی روشنی میں انسانی نسل کے لئے جو معاشرتی قوانین ترتیب دیئے وہی دین حق کی بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر اصلاحی کام شروع ہوا۔مرد اور عورت دونوں کے حقوق کا تعین ہوا۔ دونوں کے حقوق و فرائض متعین کر دیئے گئے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوشیار اور خود غرض لوگوں نے اس معاشرے میں قدغن لگائی اور اصلاحی معاشرہ تخریبی معاشرہ بن گیا۔مرد چونکہ اعصابی طور پر مضبوط تھا اس نے چالاک حکمت عملی کے تحت زور بازو ہر چیز کو اپنی ملکیت بنا لیا۔ آدمؑ کے بنائے ہوئے قانون کہ
’’مرد و عورت دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اور لباس ہیں اور دونوں اس طرح مساوات کے عمل میں شریک ہیں کہ
ہر کوئی اپنا فرض پورا کرے
اپنا حق حاصل کرے
کسی کے حق پر غاصبانہ قبضہ نہ کرے
اور اپنا حق نہ چھوڑے۔‘‘
پر عمل نہیں ہو سکا۔ چونکہ معاشرہ مرد اور عورت (دو یونٹ) کے بغیر مکمل ہی ہی نہیں سکتا۔ اس لئے مرد نے پہلی ضرب عورت پر لگائی اور وہ یہ بھی بھول گیا کہ۔
’’مرد کی پیدائش اور تخلیق کے عمل میں مرد کے کردار کے مقابلے میں عورت کا کردار تین حصے زیادہ ہے۔‘‘
جنسی غلبے نے آدم زاد کو حیوانات سے زیادہ مغلوب کر دیا۔
اور اس طرح عورت کو گھریلو استعمال کی ایک چیز سمجھا جانے لگا۔ بھیڑ بکریوں کی طرح اس کی خرید و فروخت ہونے لگی۔ مرنے والے مرد کے مال کے ساتھ عورت وراثت میں تقسیم ہو جاتی تھی۔ یورپ میں عورت کی وقعت اس حد تک کم تھی کہ وہ عورت کو انسان تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ ہندوستان میں بیوی کو خاوند کے ساتھ ستی کر دیا جاتا تھا۔ یعنی خاوند کے ساتھ زندہ جلا دینا عورت کا مقدر بنا دیا گیا تھا۔
وہی یورپ جو عورت کو انسان کا درجہ دینے پر تیار نہیں تھا۔
انقلاب فرانس کے بعد اتنا ضرور نیچے آیا کہ عورت کو مرد کی خادمہ تسلیم کر لیا گیا۔
زمانے کے نشیب و فراز کے ساتھ زمین پر فساد برپا ہوتا رہا اور آدم کا بیٹا زمین کو اجاڑنے کے منصوبے بناتا رہا۔پھر حرص و حوس اور اقتدار کی بھٹی میں ایسے ایسے مہلک ہتھیار بنائے کہ زمین پر شگوفے کھلنے کی بجائے آگ و خون کا بازار گرم ہو گیا۔اقتدار کی خواہش نے لاکھوں مردوں کو لقمۂ اجل بنا دیا۔ مرد کم ہو گئے تو عورتوں کی کثرت سے نئے نئے مسائل سامنے آ ئے۔ عورتیں پاگل ہو کر سرے بازار آ گئیں۔ زمین پر آدم کی نسل کم ہونے لگی تو مرد سر جوڑ کر بیٹھے اور عورت کو ایسی آزادی دی کہ معاشرہ مزید درہم برہم ہو گیا۔ غیر جانبدار سوچ بتاتی ہے کہ اس میں بھی مرد کی خود غرضی سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
سوال یہ ہے کہ سب کچھ مرد ہی کیوں کرتے ہیں۔ کیا عورت میں عقل و شعور نہیں ہے۔ کیا عورت مرد کی ماں نہیں ہے۔ کیا وہ عضو معطل ہے؟
کسی بھی زمانے میں مرد نے اپنی طاقت، مضبوط اعصاب، شیطنت اور مکر و فریب سے عورت کو اقتدار میں اپنے برابر نہیں بٹھایا۔ اب جب کہ عورت کو حقوق دینے کی باتیں ہو رہی ہیں اور مساوات کے نام پر عدم مساوات کی تحریکیں چلائی جا رہی ہیں مادی چکا چوند میں معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے یہ بھی زمین پر آباد پر امن لوگوں کے خلاف ایک سازش ہے۔
عورت اور مرد معاشرے کے دو اہم رکن ہیں جس طرح مرد کے بغیر کوئی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا اسی طرح معاشرے کے اہم ترین رخ عورت کو اگر الگ کر دیا جائے تو سارا کائناتی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
خالق کائنات نے جو تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہے۔ کائناتی معاشرے کو دو رخوں سے بنایا ہے اور بار بار پیغمبروں کے ذریعہ اس کی وضاحت کرائی ہے۔ حضرت آدمؑ سے لے کر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے ایک ہی بات کو دہرایا ہے کہ
عورت اور مرد دو رخوں کی تخلیق ہے۔ عورت اور مرد دونوں کے اپنے اپنے فرائض ہیں جب بھی ان فرائض منصبی کو کم وقعت سمجھا جائے گا معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جائے گا۔
اسلام اللہ کا قانون ہے۔ اس قانون نے عورت کو مساوی حقوق دیئے ہیں۔ معاشرے کی تعمیر میں عورت کا بھرپور کردار ہے۔وراثت میں اسے حصے دار بنایا ہے۔ بالغ عورت کو کسی کے ساتھ نکاح پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ شوہر کے لئے عورت کے حقوق پورے کرنا اسے خوش رکھنا اور اس پر خرچ کرنا اللہ نے عبادت قرار دیا ہے۔ عورت کے اوپر بھی مرد کے حقوق قائم کئے ہیں۔ عورت کو معاشرے کی تعمیر میں ایک اہم کردار ادا کرنے یعنی اولاد اور نسل انسانی کی صحیح تربیت اور تعلیم کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
موجودہ سائنسی اور مادیت گزیدہ معاشرہ میں عورت کے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے حقوق کی حفاظت کرے۔اپنی انا کو ٹٹولے اور دیکھے کہ اس کے کاندھوں کو قدرت نے کتنا طاقتور اور مضبوط بنایا ہے۔
عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنی نسل اور اپنی اولادبیٹے اور بیٹیوں کو بتائے کہ مادی اقتدار عارضی ہے۔ مادی زندگی فریب کے لباس میں قید ہے۔ محض مادی اقتدار قوموں کے زوال کی علامت ہے۔ مادی اقتدار کے پجاری اخلاقی قدروں کو پامال کر دیتے ہیں اور زمین آگ کا دریا بن جاتی ہے۔ اور اس آگ میں مرد اور عورت دونوں جل کر بھسم ہو جاتے ہیں۔
اے عورت! تو میری ماں ہے۔
تو نے مجھے جنم دیا ہے۔ عدم سے وجود میں لانے کیلئے تو میرے لئے وسیلہ اور ذریعہ بنی ہے۔
تیرے اندر کی آتما، تیری روح نے میری تخلیق کی ہے۔
اے عورت!
تو میری شناخت ہے تو نہ ہوتی تو میں بھی نہ ہوتا۔
میری رگوں میں جو خون دوڑ رہا ہے وہ تیرا ہی خون ہے۔
میری زندگی میں جو انرجی جل رہی ہے وہ تیری آغوش کے لمس کی گرمی ہے۔ تو نے میرے باپ کو مضبوط اعصاب بخش کر خوبصورت پیکر بنایا۔
تو میری ایسی ماں ہے جس نے مجھے بھی باپ کے مقدس مرتبے پر فائز کر دیا۔
اے ماں! آج پھر تیری نسل کو تیری ضرورت ہے۔
تو اپنے بچوں کے دلوں میں انسانوں کی محبت بھر دے۔
ایسی تربیت دے کہ نوع انسانی میں سے نفرت و حقارت کے جذبات سرد پڑ جائیں، ختم ہو جائیں۔
اے ماں! ایسی تعلیم دے کہ تیری اولاد مادیت کے عفریت سے نجات حاصل کر کےمادیت کے خالق کی گود کو اپنا مسکن بنائے۔
اے ماں! ٹھنڈے موسم میں تو سورج کی تپش ہے۔
گرم لہروں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے تو چاند کی چاندنی ہے۔
تو دن کا اجالا ہے اور ستاروں بھری رات کی کہکشاں ہے۔
تو اولاد کا سکون ہے۔
اے ماں!
تجھے تیری مامتا کا واسطہ
تو اپنی روحانی قوتوں سے ہمارا سکون لوٹا دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 187 تا 191

اسم اعظم کے مضامین :

1.1 - نظریہ رنگ و روشنی 1.2 - فوٹان اور الیکٹران 1.3 - کہکشانی نظام اور دو کھرب سورج 1.4 - دو پیروں اور چار پیروں سے چلنے والے جانور 5.8 - مراقبہ مرتبہ احسان اور روشنیوں کا مراقبہ 1.5 - چہرہ میں فلم 1.6 - آسمانی رنگ کیا ہے؟ 1.7 - رنگوں کا فرق 1.8 - رنگوں کے خواص 2.1 - مرشد کامل سے بیعت ہونا 2.2 - مرشد کامل کی خصوصیات 2.3 - تصور سے کیا مراد ہے؟ 2.4 - علمِ حصولی اور علمِ حضوری میں فرق 2.5 - اسم اعظم کیا ہے 2.6 - وظائف نمازِ عشا کے بعد کیوں کیئے جاتے ہیں 2.7 - روزہ روح کی بالیدگی کا ذریعہ ہے 2.8 - نام کا انسانی زندگی سے کیا رشتہ ہے اور نام مستقبل پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں؟ 2.9 - جب ایک ہی جیسی اطلاعات سب کو ملتی ہیں تو مقدرات اور نظریات میں تضاد کیوں ہوتا ہے؟ 3.1 - نماز اور مراقبہ 3.2 - ایسی نماز جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق حضور قلب اور خواہشات، منکرات سے روک دے کس طرح ادا کی جائے؟ 3.3 - روح کا عرفان کیسے حاصل کیا جائے؟ 3.4 - مخلوق کو کیوں پیدا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا طریقہ کیا ہے؟ 3.5 - چھ دائرے کیا ہیں، تین پرت سے کیا مراد ہے؟ 3.6 - روح انسانی سے آشنا ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ 3.7 - مراقبہ کیا ہے۔ مراقبہ کیسے کیا جائے؟ 4.1 - تعارف سلسلہ عظیمیہ 4.2 - سلسلہ عظیمیہ کے اغراض و مقاصد اور قواعد و ضوابط 5.1 - مراقبہ سے علاج 5.2 - مراقبہ کی تعریف 5.3 - مراقبہ کے فوائد اور مراقبہ کی اقسام 5.4 - مراقبہ کرنے کے آداب 5.5 - سانس کی مشق 5.6 - مراقبہ کس طرح کیا جائے۔ خیالات میں کشمکش 5.7 - تصورِ شیخ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے 5.9 - مراقبہ سے علاج 6.1 - سانس کی لہریں 6.2 - روحانی علم کو مخفی علم یا علم سینہ کہہ کر کیوں عام نہیں کیا گیا 6.3 - اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنے اور توکل کرنے کے کیا معانی ہیں 6.4 - رحمانی طرز فکر کو اپنے اندر راسخ کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے 6.5 - واہمہ، خیال تصور اور احساس میں کیا فرق ہے؟ 6.6 - ہمارا ماحول ہمیں کس حد تک متاثر کرتا ہے؟ 7 - کیا نہیں ہوں میں رب تمہارا؟ 7.2 - لوح اول اور لوح دوئم کیا ہیں 7.3 - علمِ حقیقت کیا ہے 7.4 - علمِ حصولی اور علم حضوری سے کیا مراد ہے 7.5 - روح کیا ہے 8 - انسان اور آدمی 9 - انسان اور لوحِ محفوظ 10.1 - احسن الخالقین 10.2 - روحانی شاگرد کو روحانی استاد کی طرز فکر کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ 10.3 - روحانی علوم حاصل کرنے میں زیادہ وقت کیوں لگ جاتا ہے؟ 10.4 - تصورات جسم پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں 10.5 - یادداشت کیوں کمزور ہو جاتی ہے؟ 10.6 - تصور سے کیا مراد ہے 10.7 - کسی بزرگ کا قطب، غوث، ابدال یا کسی اور رتبہ پر فائز ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟ 10.8 - تصور کیا ہے 10.9 - کرامت کی توجیہہ 10.10 - مختلف امراض کیوں پیدا ہوتے ہیں 11 - تصوف اور صحابہ کرام 12 - ایٹم بم 13 - نو کروڑ میل 14 - زمین ناراض ہے 15 - عقیدہ 16 - کیا آپ کو اپنا نام معلوم ہے 17 - عورت مرد کا لباس 18 - روشنی قید نہیں ہوتی
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)