علمِ حصولی اور علم حضوری سے کیا مراد ہے
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=745
سوال: علم حصولی اور علم حضوری سے کیا مراد ہے؟
جواب: علم کی دو طرزیں متعین ہیں۔ ایک طرز علم حضوری اور علم کی دوسری طرز کو روحانی سائنس میں اکتساب کہتے ہیں یعنی ایسا علم جو عقل کے استعمال سے سیکھ لیا جائے۔ جتنا زیادہ عقل کا استعمال ہو گا اس ہی مناسبت سے اس علم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
علم حصولی ایک ایسا علم ہے کہ آدمی اپنی کوشش، محنت، جدوجہد اور صلاحیتوں کے مطابق ظاہر اسباب میں رہ کر کوئی علم سیکھے اور اس علم میں مادی وسائل بروئے کار آئیں۔ اکتسابی علوم آدمی کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق اور عقل کے استعمال کے ذریعے بتدریج حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ یعنی جس علم میں جتنی زیادہ عقل استعمال کیا جائے اسی مناسبت سے یہ علم اس بندے کے لئے روشنی بنتا چلا جائے گا۔ بات اس میں عقل کے استعمال کی ہے۔ عقل بندر میں بھی ہوتی ہے، عقل انسان میں بھی ہے۔ بندر کی عقل کے مطابق اسے علوم سکھائے جائیں وہ بھی سیکھ لیتا ہے۔ ایک آدمی لوہار بننا چاہتا ہے۔ اس کے سامنے تین چیزیں ہیں۔ ایک لوہا، دوسری وہ صلاحیت جو لوہے کو مختلف شکلوں میں ڈھالتی ہے اور تیسری صلاحیت کا استعمال۔ اب وہ صلاحیت کو استعمال کرتا ہے تو صلاحیت کے مطابق لوہے سے بے شمار چیزیں بنتی چلی جاتی ہیں۔
کسی علم کو سیکھنے کے لئے (Common Factor) نیت ہے یعنی وہ علم کس لئے سیکھا جا رہا ہے۔ اس علم کی بدولت جو چیزیں تخلیق پا رہی ہیں ان چیزوں میں تخرب کا پہلو نمایاں ہے یا اس کے اندر تعمیر پنہاں ہے۔ لوہا ایک دھات ہے۔ لوہے کو مختلف چیزوں میں ڈھال دینا ایک صلاحیت ہے لیکن یہ چیزیں کس مقصد اور کس کام کے لئے بنائی گئی ہیں یہ بات تعمیری یا تخریبی پہلو ظاہر کرتی ہے۔ لوہے سے ایسی چیزیں بھی بنتی ہیں جن کے اوپر انسان کی فلاح و بہبود کا دارومدار ہے مثلاً چمٹا، پھونکنی، توا، ریل کے پہیے، ریل کے ڈبے، ہوائی جہاز اور دوسری بے شمار چیزیں۔ اگر اگر نیت میں تخریب ہے تو یہی لوہا راکٹ اور بم وغیرہ میں تبدیل ہو کر نوع انسانی کی تباہی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔
علم حصولی ایک ایسا علم ہے جو وسائل کے یقین کے ساتھ سکھایا جاتا ہے۔ وسائل ہوں گے تو یہ علم سیکھا جا سکتا ہے۔ وسائل نہیں ہونگے تو یہ علم نہیں سیکھا جا سکتا۔ قلم ہو گا تو تحریر کاغذ پر منتقل ہو گی۔ قلم نہیں ہو گا تو تحریر کاغذ پر منتقل نہیں ہو گی۔ مطلب یہ ہے کہ قلم وسیلہ ہے اس بات کے لئے کہ تحریر کو کاغذ پر منتقل کیا جائے۔ علم حصولی کے لئے وسائل کے ساتھ ساتھ استاد کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ ایسا استاد جو گوشت پوست سے مرکب ہو جو زمان و مکان میں بند جسمانی خدوخال کے ساتھ شاگرد کے سامنے ہو نیز استاد یہ بتانے کے لئے موجود ہو کہ قلم اس طرح پکڑا جاتا ہے اور قلم سے الف، ب،ت، اس طرح لکھی جاتی ہے۔
علم حضوری وہ علم ہے جو ہمیں غیب کی دنیا میں داخل کر کے غیب کی دنیا سے متعارف کراتا ہے۔ یہ وہ علم ہے جس کی حیثیت براہ راست ایک اطلاع کی ہے۔ یعنی علم حضوری سیکھنے والے بندے کے اندر لاشعوری تحریکات عمل میں آجاتی ہیں۔ لاشعوری تحریکات عمل میں آنے سے مراد یہ ہے کہ حافظے کے اوپر ایک نقش ابھرتا ہے مثلاً اگر علم حضوری سکھانے والا کوئی استاد کبوتر کہتا ہے تو حافظے کی سطح پر یا ذہن کی اسکرین پر کبوتر کا ایک خاکہ سا بنتا ہے اور جب الفاظ کے اندر گہرائی پیدا ہوتی ہے تو دماغ کے اندر واقع کبوتر اپنے پورے خدوخال کے ساتھ بیٹھا ہوا نظر آ جاتا ہے۔ اسی طرح جب استاد کسی سیارے یا ستارے کا تذکرہ کرتا ہے تو حافظے کی اسکرین پر روشن اور دمکتا ہوا ستارہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح روحانی استاد جب جنت کا تذکرہ کرتا ہے تو جنت سے متعلق ایک فلم دماغ کے اندر ڈسپلے ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ذہن کے اندر یہ بات ہمیں نقش نظر آتی ہے کہ جنت ایک ایسا باغ ہے جس میں خوبصورت پھول ہیں، آبشاریں ہیں، دودھ کی طرح سفید پانی کی نہریں ہیں اور وہاں ایسے خوبصورت مناظر ہیں جن کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔
علم حضوری ایک ایسا علم ہے جو مادی وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ اس علم کو سیکھنے کے لئے کاغذ، قلم، دوات کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جس طرح حصولی علم کو سیکھنے کے لئے استاد کی ضرورت پیش آتی ہے اسی طرح حضوری علم کو سیکھنے کے لئے روحانی استاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ علم ٹائم اور اسپیس کی حدود سے باہر ہے۔ اس کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ استاد مادی خدوخال اور دوسری مادی وسائل کے ساتھ بھی شاگرد کے سامنے موجود ہو۔ علم کے طالب کو شاگرد کہا جاتا ہے اور علم سکھانے والے کو استاد کا نام دیا جاتا ہے۔ علم حضوری سیکھنے والے طالب علم کا اصطلاحی نام مرید ہے اور علم حضوری سکھانے والے کا اصطلاحی نام مراد ہے۔
علم حضوری میں استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ طالب علم کو صلاحیتوں کا استعمال سکھا دے۔ اک آدمی تصویر بنانا چاہتا ہے یا تصویر بنانے کا فن سیکھنا چاہتا ہے۔ استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ شاگرد کو یہ بتا دے کہ تصویر اس طرح بنتی ہے کہ اگر گراف کے اتنے خانے کاٹ دیئے جائیں تو ناک بن جائے گی۔ گراف کے اتنے خانوں پر پنسل پھیر دی جائے تو کان بن جائے گا۔ گراف کے اندر اتنی تعداد میں خانے کاٹ دیئے جائیں تو آنکھیں بن جائیں گی۔ پینسل کو اس زاویے سے گھما دیا جائے تو چہرہ بن جائے گا۔ طالب علم استاد کے بتائے ہوئے اس طریقے پر عمل کرتا ہے تو وہ تصویر بنا لیتا ہے۔ لیکن یہ تصویر اس کی اپنی صلاحیتوں کا اظہار ہوتی ہے۔ استاد کا کام صرف اتنا تھا کہ اس نے تصویر بنانے کا قاعدہ سمجھا دیا۔ جتنی مشق کی جاتی ہے اسی مناسبت سے تصویر کے خدوخال بہتر اور خوبصورت ہوتے جاتے ہیں۔
اس کے متضاد علم حضوری میں مراد مرید کے اندر اپنی صلاحیتیں منتقل کر دیتا ہے مرید جب تصویر کشی کر لے گا تو اس تصویر میں مراد کی صلاحیت کا عکس نمایاں ہو گا۔ صلاحیتوں کا منتقل کرنا مادی وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ صلاحیتوں کو قبول کرنے کے لئے اور مراد کی طرز فکر اپنے اندر منتقل کرنے کے لئے صرف اور صرف ایک بات کی ضرورت ہے وہ یہ کہ مرید خور کو اپنی تمام ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ مراد کے سپرد کر دے اور اپنی ذات کی اس طرح نفی کر دے کہ اس کے اندر بجز مراد کے کوئی چیز نظر نہ آئے۔
جیسے جیسے یہ طرز مرید کے اندر مستحکم ہوتی رہتی ہے اسی مناسبت سے مراد کی طرز فکر مرید کے اندر منتقل ہوتی رہتی ہے۔
حضرت اویس قرنیؒ اور سیدنا حضور اکرمﷺ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حضرت اویس قرنیؒ سیدنا حضور اکرمﷺ سے کبھی نہیں ملے لیکن محبت اور قربت کا یہ عالم تھا کہ حضور اکرمﷺ شام کی طرف رخ فرماتے تھے تو چہرہ مبارک خوشی سے تمتما جاتا تھا۔ اور فرماتے تھے شام سے مجھے بوئے دوست آتی ہے۔
آدمی کے اندر دماغ دراصل ایک اسکرین ہے بالکل ٹی وی کی طرح۔ کہیں سے کوئی چیز نشر ہوتی ہے۔ ہزاروں میل کے فاصلے سے بغیر کسی وقت کے وہ تصویر ٹی وی اسکرین پر منتقل ہو جاتی ہے۔ وہ تصویر بنتی ہے، وہ تصویر بولتی بھی ہے، وہ تصویر ہنستی بھی ہے، وہ تصویر روتی بھی ہے حالانکہ یہ علم حصولی ہے کہ لوگوں نے وسائل کو کام میں لا کر اتنی زیادہ کوشش کی کہ ہزاروں میل کے فاصلے سے انہوں نے آدمی کو لہروں میں تبدیل کر کے دور دراز علاقوں میں منتقل کر دیا یہی نہیں ہے کہ ایک تصویر صرف ایک جگہ نظر آئے بلکہ ٹی وی اسٹیشن سے نکلی ہوئی ایک تصویر ہزاروں لاکھوں جگہ بیک وقت نظر آتی ہے۔
اسی طرح جب کوئی مراد اپنے مرید کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے اندر ٹائم اور اسپیس کو حذف کرنے والی صلاحیتیں مرید کے دماغ کے اسکرین پر منتقل ہو جاتی ہیں اور جیسے جیسے یہ صلاحیتیں منتقل اور متحرک ہوتی رہتی ہیں، مرید کے اندر ذہنی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ مرید کی طرز فکر مراد کی طرز فکر بن جاتی ہے۔ مراد کی صلاحیتیں مرید کی صلاحیتیں بن جاتی ہیں۔ اور جب یہ عمل اپنے عروج پر پہنچتا ہے۔ تو مراد اور مرید ایک ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ دونوں کی گفتگو ایک ہو جاتی ہے، دونوں کی شکل وصورت ایک ہو جاتی ہے، دونوں کا طرز کلام ایک ہو جاتا ہے۔ ایسے بے شمار واقعات تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں کہ مراد کے سر میں درد ہوا تو مرید نے بھی اسی طرح درد کی کسک محسوس کی اور پٹی باندھ لی۔ مراد کو بخار ہوا تو مرید بھی بخار میں تپنے لگا۔
جب کہ مرید اور مراد دونوں کے درمیان فاصلہ سینکڑوں اور ہزاروں میل تھا۔ جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا دونوں ایک ہی وقت بخار میں مبتلا ہوئے۔ اگر مرید کے اندر جذبۂ صادق ہے اور مراد سے عشق کے دریچے میں محبت کرتا ہے، اپنی ذات کی نفی کر کے سب کچھ مراد کو سمجھتا ہے تو پھر دور دراز کے فاصلے معدوم ہو جاتے ہیں اور مرید ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی اپنے مراد اور پیر و مرشد نے فیض یاب ہو سکتا ہے۔
ایسا صرف علم حضوری ہی کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ یہ علم منتقل ہوتا ہے سکھایا نہیں جاتا۔ علم حصولی اور علم حضوری میں یہی بنیادی فرق ہے۔ مرید یا شاگرد دونوں طریقوں سے یہ علم سیکھتا ہے مگر علم حصولی میں مرید یا شاگرد کو اپنی صلاحیتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جب کہ علم حضوری میں مراد اپنی صلاحیتوں مرید کی روح کے اندر انڈیل دیتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 97 تا 102
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔