عالمِ امر کا مظاہرہ دیکھ کر حضرت عزیرؑ پکار اٹھے
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26553
’’تسلیم کرتا ہوں کہ بے شک اﷲ ہر چیز پر قادرہے۔‘‘
ایک ساٹھ سال کا آدمی مرگیا اور دل، گردے، دماغ، آنکھیں سب اعضاء موجود ہیں۔ لیکن کوئی عضو کام نہیں کرتا۔ اس نظام میں سب کی حقیقت ایک جیسی ہے۔ چاہے وہ عالم فاضل ہو یا جاہل ہو، غریب ہو یا امیر ہو…… جب جسم میں پورے اعضاء موجود ہیں تو آدمی حرکت کیوں نہیں کرتا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جسم کے اندر سسٹم فیوز ہو گیا ہے،فضا میں بجلی ہے، آکسیجن ہے،مگر جسم مردہ ہے․․․․․ اس کا صاف مطلب یہ ہے انسان روشنیوں سے چل رہاہے، روشنی، روشنی کو کھارہی ہے۔ روشنی، روشنی سے بات کررہی ہے۔ لوگ ماں باپ اس وقت بنتے ہیں، جب ان کے اندر روشنی ہوتی ہے۔ روشنی ختم ہوجائے تو سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔
’’اﷲ نور ہے آسمانوں اور زمین کا،اس نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے، اس میں ایک چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے،موتی کی طرح چمکدار اور روشن ہے،برکت والے پیڑ زیتون سے جس کا نہ مشرق ہے نہ مغرب ہے قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے نور پر نور ہے اور اﷲ اپنے نور کی راہ بتاتاہے جسے چاہتاہے اور اﷲ مثالیں بیان فرماتاہے لوگوں کے لئے اور اﷲ سب کچھ جانتاہے۔‘‘
(سورۃ نور آیت نمبر ۳۵)
جب انسان قرآن کے بیان کردہ اس فارمولے سے واقف ہو جائے گا تو اسے بھاری بھر کم لوہے کے بنے ہوئے روبوٹ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، اسے سوئچ آن آف نہیں کرنا پڑے گا، اس کی سوچ روبوٹ کا کام کر ے گی، وہ جو چاہے گا اﷲ کے حکم سے ہو جائے گا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 318 تا 319
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔