ضرورتِ شَیخ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=20167
مفسرین، مقتدمین اور اکابرینِ امّت کے نزدیک وسیلہ سے مراد ’’ مرشد‘ ‘کا وسیلہ ہے یعنی استاد ، شاگر دکا رشتہ ہے۔شاہ عبدالرحیمؒ ، شاہ ولی اللہ ؒ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ نے وسیلہ سے یہی معنی
مراد لئے ہیں۔اولیاء کرام کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ وسیلہ سے مراد شیخ طریقت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا ، لیکن منکرینِ طریقت کہتے ہیں کہ وسیلہ سے مراد ’’نیک اعمال ‘‘ہیں۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں:
اگر نیک عمل وسیلہ ہے تو شیخ طریقت بھی مرید کے لئے نیک اعمال کرانے کا یا صراطِ مستقیم پر چلانے کا اور عرفانِ ذات کے بعد عرفانِ الہٰی حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔
علّامہ ذمحشری ؒ، شاہ ولی اللہ ؒ ، شاہ عبدالرحیم ؒ ، بایزید بسطامی ؒ، جنید بغدادیؒ ، معین الدین چشتی ؒ ، نظام الدین اولیاءؒ اور تمام اولیاءِ کرام ،قادریہ، چشتیہ،سہروردیہ اور نقشبندیہ سلاسل اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ ، مولانا رومؒ ، فرید الدین عطارؒ ، علاّمہ اقبالؒ اور قلندر بابا اولیاء ؒ لفظ ’’وسیلہ‘‘سے مراد’’ شیخ‘‘ ہی لیتے ہیں۔
جب ہم انسانی جبلّت اور فطرت پر غور کرتے ہیں تو ایک بات کے علاوہ دوسری کسی بات پر ذہن نہیں رکتا کہ کوئی بھی علم سیکھنے کیلئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔
لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کتاب اللہ کی موجودگی میں شیخ کی کیا ضرورت ہے؟
اس اعتراض کے جواب میں کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کی کتاب موجود ہے تو معلم کتاب کی ضرورت سوالیہ نشان بن جائے گی ۔یہ بات امرِ مسلّمہ ہے کہ دنیا میں کوئی فن ایسا نہیں ہے جس میں ماہرینِ فن معلم اور استاد کی ضرورت نہ ہو۔
دین ایک مکمل علم ہے اور دین میں شریعت بھی ایک علم ہے ۔ اور شریعتِ مطہرہ کے ساتھ طریقت بھی ایک علم ہے ۔ دین توحید پرست لوگوں کیلئے ایک مرکز ہے ۔
شریعت اس مرکز کے ساتھ وابستہ رہنے کے قواعد و ضوابط اور رہنماء اصول ہیں۔طریقت اس مرکز پر محیط انوار و تجلیات کے حصول کا ذریعہ ہے۔
جب کوئی بندہ شرک و بت پرستی سے نکل کر اللہ پرست ہوتا ہے تو وہاں بھی اسے استاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔مسلمان ہونے کے بعد شریعت سیکھنے کے لئے بھی استاد کی ضرورت ہے۔ شریعت میں ارکانِ نماز، اوقاتِ نماز، روزہ کے آداب ، حج کے آداب ، معاشرتی قوانین ، پڑوسیوں کے حقوق، اللہ کے حقوق اور من الحیث القوم مسلمانوں کے اسلامی عقائد کے مطابق فرض کی آگاہی کا علم حاصل کرنے کے لئے بھی استاد کی ضرورت ہے۔
قرآنِ کریم اللہ کی آخری کتا ب ہے جو آخری نبی سےّدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئی ۔ اس کو سمجھنے کے لئے بھی استاد کی ضرورت ہے۔اسی طرح تصوّف یا روحانیت سیکھنے کے لئے بھی استاد کی ضرورت ہے۔
ہم جب کوئی علم سیکھنا چاہتے ہیں تو اس بات کا اطمینان کر لیتے ہیں کہ علم سکھانے والا صاحبِ علم ہے ۔ اگر ہمیں یہ بات معلوم ہوجائے کہ علم سکھانے والا وہ علم نہیں جانتا جو ہم سیکھنا چاہتے ہیں تو ہم اس کی شاگردی اختیار نہیں کرتے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 59 تا 61
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔