یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
ضدی لوگ
مکمل کتاب : تجلیات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2990
حضرت سید البشر رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’کائنات میں گھڑی بھر کا تفکر سال بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘
جن قوموں نے کائنات کے اجزائے ترکیبی یعنی افراد کائنات کی تخلیق پر غور کیا وہ سرفراز ہوئیں اور جس قوم نے کائناتی تفکر سے اپنا رشتہ منقطع کیا وہ اقوام عالم میں مردہ قوم بن گئی۔
تخلیق کائنات پر غور و فکر کی اہمیت کا واضح اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ قرآن نے نوع انسانی کو اس طرف بطور خاص متوجہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ پیدا کیا ہے، وہ محض دکھاوے کے لئے پیدا نہیں کیا۔ کائنات کا ایک ایک ذرہ کسی نہ کسی مصلحت اور حکمت خداوندی کا کرشمہ ہے۔
قرآن پاک میں سات سو چھبیس جگہ نوع انسانی کے بالغ اور باشعور افراد کو مطالعہ کائنات کی ترغیب دی گئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے صرف توحید کے اقرار، صوم و صلوٰۃ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کے معاملات ومسائل کو سامنے رکھ کر ’’کتاب مبین‘‘ میں موجود دوسرے احکامات پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی اور ہادئ برحق، باعث تخلیق کائنات محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قول مبارک ’’کائنات میں ایک لمحے کے برابر تفکر سال بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘ پر ہم غور و فکر نہیں کرتے۔
سورۂ بقرہ میں ارشاد ربانی ہے:
’’ارض و سما کی تخلیق، اختلاف لیل و نہار، سمندر میں تیرنے والی کشتیوں اور اس گھٹا میں جو زمین و آسمان کے درمیان خیمہ زن ہیں اور باب عقل و دانش کے لئے نشانیاں موجود ہیں۔‘‘
سورۂ آل عمران میں ہے:
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور دن رات کی تبدیلیوں میں عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں، جو ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین کو کوکھ سے جنم لینے والی نئی نئی موجودات پر غور و فکر کرتے ہیں، اے رب تو نے یہ سب کچھ بے کار پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے، ہمیں ایسی زندگی سے محفوظ کر دے جس زندگی کے اوپر خوف اور حزن و ملال محیط ہے۔‘‘
سورۂ روم میں رب ذوالجلال یوں گویا ہیں:
زمین و آسمان کی پیدائش اور چوپایوں کی افزائش نسل اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کے اختلاف میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں موجود ہیں۔‘‘
سورۂ یوسف میں تنبیہ کے لہجے میں اللہ رب العزت کہتے ہیں:
’’ارض و سما میں کتنی ہی ایسی نشانیاں ہیں جن سے غافل لوگ منہ پھیر کر گزر جاتے ہیں۔‘‘
اور ان منہ پھیرنے والوں کو سورۂ سبا میں یہ وعید کی جا رہی ہے:
’’کیا یہ لوگ اپنے آگے پیچھے، زمین و آسمان کے ظاہر و باطن، عیاں و نہاں، مخفی اور مشاہداتی معجزات پر غور نہیں کرتے؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں اس ہی زمین میں پیوند کر دیں یا آسمان کو ان کے سروں پر گرا دیں، ہماری اس تنبیہ سے صرف خدا شناس لوگ ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘
سورۂ اعراف میں ذرا اور زیادہ تنبیہ کی جارہی ہے:
’’کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کو زندہ رہنے کی جو مہلت دی گئی ہے اس کے پورے ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے۔‘‘
ہم رات دن ڈھول پیٹتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، جنت ہماری میراث ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں کی ہمارے اوپر (ثواب کی شکل میں) بارش برستی رہتی ہے اور ثواب سے ہمارے خزانے بھرے ہوئے ہیں جبکہ من حیث القوم ہم تہی دست ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان قرآن پر ہے مگر ہم یہ کبھی نہیں سوچتے کہ قرآن کے نزدیک ایمان کی کسوٹی کیا ہے۔
قرآن کہتا ہے۔۔۔۔۔۔
زمین و آسمان میں اہل ایمان کے لئے حقائق و بصائر موجود ہیں یعنی اہل ایمان کی خصوصیت یہ ہے کہ زمین و آسمان کی حقیقتوں اور زمین و آسمان کے اندر موجود تخلیقات کے فارمولوں (Equations) پر ان کی نظر گہری ہوتی ہے۔ ان کے اندر مشاہدے کی طاقت کہکشانی نظاموں کی نقاب کشائی کرتی رہتی ہے۔
قرآن بار بار یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ نشانیاں ایمان والوں کے لئے ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ نشانیاں تو سب کے لئے ہیں مگر انسانوں میں صرف ایمان والے لوگ ہی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں، آیتوں اور حکمتوں پر غور و فکر کرتے ہیں۔ غفلت اور جہالت میں ڈوبے ہوئے لوگ جو جانوروں کی طرح جیتے ہیں۔ ضدی اور ہٹ دھرم لوگ جو’’میں نہ مانوں‘‘ کی زندہ متحرک تصویر ہیں ان کے لئے اللہ کی نشانیوں کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔
ایک آدمی جو اندھا ہے چمن کے اندر کھلے ہوئے داغ داغ پھولوں اور رنگ رنگ دل فریب مناظر سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح بصارت اور ایمان کی روشنی سے محروم لوگ قدرت کے مناظر کا ادراک نہیں کر سکتے۔
قرآن برملا اعلان کرتا ہے:
“وہ کہتے ہیں ہم مسلمان ہوئے مگر ابھی ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔”
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 93 تا 96
یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔