صوفیاءِ کرام کی دینی خدمات
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=22796
دہلی بھارت میں حضرت خواجہ باقی بااﷲ کا مزارہے ۔امام ِربانی مجدد الف ثانی حضرت خواجہ باقی بااﷲ کے خلیفہ ہیں ۔
احمد سرہندی مجددالف ثانی ؒکی پیدائش سے قبل آپ کے والد بزرگوار نے خواب میں دیکھاکہ تمام جہاں اندھیرے میں گھر اہوا ہے ۔بندر،ریچھ اورسور آدمیوں کو ہلاک کررہے ہیں ۔ آپ کے سینہ ء مبارک سے نور کاجھماکہ ہوا اور اس میں سے ایک تخت ظاہر ہو ااس تخت پر ایک بزرگ تشریف فرما ہیں ان کے سامنے ظالم ،بے دین اورملحد لوگوں کو ہلاک کیا جارہاہے ۔
حضرت مجدد الف ثانی کے والد نے یہ خواب حضرت شاہ کمال کیتھل ؒسے بیان کیا شاہ کمال صاحب نے یہ تعبیر دی کہ آپ کے یہاں ایک لڑکا پید ا ہوگاجس سے اﷲ کے دین میں شامل کی ہوئی بدعتیں اورخرافات ختم ہوجائیں گی ۔ مجدد صاحب کا نام احمد ،لقب بدرالدین ہے ۔آپ کا نسب نامہ حضرت امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق ؓ کی ستائیسویں پشت سے ملتاہے ۔
ہندوستان میں آپ نے کفر وشرک کا مردانہ وار مقابلہ کیا آپ نے ہزاروں مسلمانوں کی راہنمائی فرمائی اوراپنے دور کے طاقتور بادشاہ اکبر کی ملحدانہ سرگرمیوں کا نہایت کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا۔
اکبر نے کفر والحاد کویہاں تک پھیلادیا تھا کہ کلمہ ٔ طیبہ میں محمد رسول اﷲ کے بجائے اکبر خلیفۃ اﷲ کا حکم جاری کردیا تھا۔ حضرت مجدد ؒ نے ناصرف ان حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیابلکہ ان کی بیخ کنی کے لئے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ اکبر وجہانگیرکے قائم کردہ دین الٰہی کا خاتمہ ہوگیا۔
اﷲ تعالیٰ نے مجددالف ثانی ؒ کو کامیاب وکامران کیا ۔
چنگیز خانی طوفان نے جب دنیائے اسلام کو تہ و بالا کردیا۔شہر ویران ہوگئے ، لوگوں کو قتل کرکے ان کے سروں کے مینار بنادئیے گئے،بغداد کی آٹھ لاکھ آبادی میں سے چار لاکھ قتل و غارتگری کی بھینٹ چڑھ گئی،علم و حکمت کی کتابوں کا ذخیرہ آگ کی بھٹیوں میں جھونک دیا گیا،علماء اور فضلاء اسلام کے مستقبل سے مایوس ہوگئے۔اس وقت بھی اس سرکش طوفان کا صوفیاء نے مقابلہ کیا۔
ان لوگوں نے اسلام دشمن لوگوں کی اس طرح تربیت کی کہ اسلام کے دشمن شمعٔ اسلام بن گئے۔
سلسلہ قادریہ کے ایک بزرگ،ہلاکو خان کے بیٹے تگودار خان کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے تشریف لے گئے،تگودار خان شکار سے واپس آرہا تھاکہ اپنے محل کے دروازے پر ایک درویش کو دیکھ کر ازراہِ تمسخر پوچھا:
اے درویش تمہاری داڑھی کے بال اچھے ہیں یا میرے کتے کی دم؟ اس بیہودہ اور ذلت آمیز سوال پر بزرگ برہم نہیں ہوئے،شگفتہ لہجہ کے ساتھ،تحمل سے فرمایا:
میں اپنی جاں نثاری اور وفاداری سے اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کرلوں تو میری داڑھی کے بال اچھے ہیں ورنہ آپ کے کتے کی دم اچھی ہے جو آپ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور آپ کے لئے شکار کی خدمت انجام دیتا ہے۔
تگودار خان اس غیر متوقع اور انا کی گرفت سے آزاد جواب سے اتنا متاثر ہواکہ اس نے بزرگ کو اپنا مہمان بنا لیا اور درویش کے حلم و برد باری اور اخلاق سے متاثر ہو کر اس نے در پردہ اسلام قبول کرلیا لیکن اپنی قوم کی مخالفت کے خوف سے تگودار خان نے درویش کو رخصت کردیا۔وفات سے پہلے درویش نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ تگودار خان کے پاس جائے اور اس کواپنا وعدہ یاد دلائے۔صاحب زادے تگودار خان کے پاس پہنچے اور اپنے آنے کی غایت بیان کی۔تگودار خان نے کہا تمام سردار اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہیں لیکن فلاں سردار تیار نہیں ہے اگر وہ بھی مسلمان ہوجائے تو مشکل آسا ن ہوجائے گی۔
صاحب زادے نے جب اس سردار سے گفتگو کی تو اس نے کہا۔میری ساری عمر میدان جنگ میں گزری ہے میں علمی دلائل کو نہیں سمجھتا میرا مطالبہ ہے کہ آپ میرے پہلوان سے مقابلہ کریں اگر آپ نے اسے پچھاڑ دیا تو میں مسلمان ہوجاؤں گا۔
درویش زادے،لاغر،دبلے اور جسمانی لحاظ سے کمزور تھے۔تگودار خان نے اس مطالبہ کو مسترد کرنا چاہا لیکن درویش کے بیٹے نے سردار کا چیلنج منظور کرلیا۔مقابلے کے لئے جگہ اور تاریخ کا اعلان کردیا گیا۔مقررہ دن مخلوق کا اژدہام یہ عجیب و غریب دنگل دیکھنے کے لئے میدان میں جمع ہوگیا۔ایک طرف نخیف و کمزور ہڈیوں کا ڈھانچہ لاغر جسم تھا اور دوسری طرف گرانڈیل اور فیل تن پہلوان تھا۔
تگودار خان نے کوشش کی کہ یہ مقابلہ نہ ہو لیکن درویش مقابلہ کرنے کے لئے مصر رہا اور جب دونوں پہلوان اکھاڑے میں آئے تو درویش زادے نے اپنے حریف کو زور سے طمانچہ مارا اور وہ پہلوان اس تھپڑ کو برداشت نہ کرسکا اسکی ناک سے خون کا فوارہ ابلا اور پہلوان غش کھاکر زمین پر گر گیا۔سردار حسب ِ وعدہ میدان میں نکل آیا اس نے درویش زادے کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔تگودار خان نے بھی اپنے ایمان کا اعلان کرکے اپنا نام احمد رکھا۔ہلاکو خان کا چچا زاد بھائی بھی شیخ شمس ا لدین باخوریؒ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا۔
قسطنطنیہ کی تاریخ اسلام کا ایک لافانی باب ہے۔ حضرت شمس الدین، سلطان محمد ؒ کے مرشد کریم تھے۔انہی کی ترغیب اور بشارت سے سلطان محمد نے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ ہم تاریخ کے صفحات جتنے زیادہ پلٹتے ہیں اہل ِتصوف اور روحانی لوگوں کا ایک قافلہ ہمارے سامنے آتا ہے جو دین اسلام کو پھیلانے میں ہمہ تن مصروف نظر آتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 197 تا 199
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔