شیر کی عقیدت
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=8928
حضرت بابا تاج الدین نا گپوری ؒ کے نواسے اور قلندرشعور کے بانی قلندر بابا اولیاء ؒ اپنی کتاب تذکرۂِ تاج الدین بابا ؒ میں شیر کی عقیدت کا واقعہ اور اس واقعہ کی علمی تَوجیہ بیان کرتے ہُوئے فرماتے ہیں کہ:
ایک دن نانا تاج الدین نا گپوری ؒ واکی شریف کے جنگل (بھارت) میں چند لوگوں کے ساتھ پہاڑ پر چڑھتے چلے گئے۔ نانا ؒ مسکرا کر کہنے لگے….
‘‘میاں! جس کو شیر کا ڈر ہو وہ چلا جائے۔ میں تو یہاں ذرا سی دیر آرام کروں گا، خیال ہے کہ شیر ضرور آئے گا۔ جتنی دیر قیام کرے اس کی مرضی۔ تم لوگ جاؤ کھاؤ پیوا اور مزے کرو۔ ‘‘
بعض لوگ اِدھر اُدھر چھپ گئے اورزیادہ چلے گئے۔
گرمی کا موسم تھا درختوں کا سایہ اور ٹھنڈی ہَوا خمار کا طُوفان اٹھا رہی تھی۔ نانا اب دبیز گھاس پر لیٹ چکے تھے۔ آنکھیں بند تھیں۔ فضاء میں بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا۔
چند منٹ گزرے ہی تھے کہ جنگل بھیانک محسوس ہونے لگا۔ اس کے بعدبھی کچھ وقفہ ایسا گزر گیا جیسے شدید انتظار ہو۔ یہ انتظار کسی سادھو، کسی جو گی، کسی اَوتار کسی ولی یا کسی انسان کا نہیں تھا بلکہ ایک درندہ کا تھا جو کم از کم میرے ذہن میں قدم بہ قدم حرکت کر رہا تھا۔ یکایک نانا ؒ کی طرف نگاہیں متوجّہ ہو گئیں۔ ان کے پیروں کی طرف ایک طویلُ القامت شیر ڈھلان سے اوپر چڑھ رہا تھا۔ بڑی آہستہ خرامی سے، بڑے ادب کے ساتھ۔
شیر نیم وا آنکھوں سے نانا تاج الدین ؒ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ذرا دیر میں وہ پیروں کے بالکل قریب آگیا۔ ناناؒ گہری نیند میں بےخبر تھے۔ شیر زبان سے تلوے چُھو رہا تھا۔ چند منٹ بعد اس کی آنکھیں مستانہ واری سے بند ہو گئیں اس نے اپنا سر زمین پر رکھ دیا۔
نانا تاج الدین ؒ ابھی تک سو رہے تھے۔ شیر نےاب ذرا ہمّت کرکے تلوے چاٹنا شروع کر دیئے۔ اس حرکت سے نانا کی آنکھ کھل گئی۔ نانا اٹھ کر بیٹھ گئے۔ شیر کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ کہنے لگے۔
’’ تُو آ گیا ! اب تیری صحت بالکل ٹھیک ہے۔ میں تجھے تندرست دیکھ کر بہت خوش ہُوا۔ اچھا، اب جاؤ‘‘
شیر نے بڑی ممنونیت سے دم ہلائی اور چلا گیا۔
میں نے اس واقعات پر بڑا غور کِیا۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ شیر پہلے کبھی ان کے پا س آیا تھا۔ مجبوراً اس اَمر کا یقین کرنا پڑتا ہے، نانا اور شیر پہلے سے ذہنی طور پر رُوشناس تھے۔ رُوشناسی کا ایک ہی طریقہ ہو سکتا ہے:
اَنا کی جو لہریں نانا اور شیر کے درمیان ردّ و بدل ہوتی تھیں وہ آپس کی ملاقات کا باعث بنتی تھیں۔
عارفین میں کشف کی روِش عام طور پر یہی ہوتی ہے۔ لیکن اس واقعے سے معلوم ہُوا کہ جانوروں میں بھی کشف اسی طرح ہوتا ہے۔ کشف کے معاملے میں انسان اور دوسری مخلوق یکساں ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 27 تا 28
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔