شہرِِ لاہور
مکمل کتاب : خطباتِ لاہور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=15844
یہ شہر پنجاب کا دار الحکومت ہے اور دریائے راوی کے بائیں کنارے پر واقع ہے۔ کئی صدیوں سے یہ شہر پنجاب کا صدر مقام رہا ہے۔ پہلی تاریخوں میں اس کا نام کہیں لہاور، کہیں لہا نور، کہیں لوہور اور کہیں لاہور ہی تحریر کیا گیا۔ امیر خسرو نے بھی اپنی کتاب میں اس شہر کو لاہور ہی درج کیا ہے۔ پہلے پہل مہاراجہ رام چندر کے اَوتار کے فرزند ‘‘لَو’’ نے یہ شہر آباد کیا اور لوہور کا نام رکھا۔ ہزاروں سال کی مدت گزرنے کے سبب لوہور کا لفظ بگڑ کر لاہورمشہور ہوگیا۔ اور دوسرای شہر رام چندر کی کے دوسرے بیٹے ’’کنتو‘‘ نے قصور آباد کیا۔ خلاصۃُ التّواریخ میں لکھا ہے کہ ۴۳۵ ہجری میں سلطان محمود غزنوی کے عہد میں یہ شہر سب سے پہلے راجہ پربچھت سنگھ (جو پانڈوں کی اولاد میں سب سے بڑا راجہ تھا) نے آباد کیا۔ اور پھر قحط وغیرہ کی وجہ سے یہ بستی ویران ہوگئی اور صد ہا سال تک ویران رہی ۔ پھر راجہ بِکرما جِیت کا وقت آیا۔ تو اس کے حکم سے دوبارہ اس شہر کو آباد کرنے کیلئے بنیاد رکھی گئی۔
جب اسلام کا زمانہ آیا اور مسلمان بادشاہوں نے غربی ملکوں میں قوت حاصل کی تو سلطان سُبکتگین کے بیٹے سلطان محمود غزنوی نے پنجاب پر حملہ کیا۔ اس وقت بھی اس شہر کا نام لاہور ہی تھا اور راجہ جے پال برہمن پنجاب کا فرماں روا تھا۔ جس کی سلطان ناصر الدین سبکتگین اور اس کے فرزند سلطان محمود غزنوی سے لڑائیاں ہوئیں۔ پہلے اس شہر کی کھلی آبادی تھی ۔ فصیلِ شہرِ پناہ نہ تھی۔ اکبرِ اعظم نے اس کے گرد پختہ حصار بنوایا ۔ فصیل کی دیوار بہت بلند اور چوڑی تعمیر کی گئی۔ ایک ایک دروازے کے درمیان دس دس برج کلاں بنوائے گئے۔ دروازے پختہ تعمیر کئے گئے۔ لاہور کا شاہی قلعہ بھی تعمیر کیا گیا۔ یہ فصیل سکھوں کی حکومت میں بھی قائم رہی۔ مگر جب انگریزوں کا دَور آیا تو یہ فصیل آدھی کردی گئی۔ پھر انگریزوں کی ہی حکومت میں گرا کر اس کی جگہ ایک مختصر دیوار بنا دی گئی۔
شہر کا حدود اَربعہ:
شہر کا قدیم حصہ طول میں سوا میل اور عرض میں ایک میل ہے۔ کل حصہ تقریباًتین میل کے قریب ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے بائیں کنارے دو میل کے فاصلے پر آباد ہے۔ صد ہا سال سے یہ شہر پنجاب کا صدر مقام رہا ہے۔ اس شہر کی مشرقی سرحد تقریباً۲۳ میل کے فاصلے پر ہے۔ اس کا عرض ۳۱ درجہ ڈگری پر ۳۴ فٹ اور ۵ انچ شمال کی طرف اور طول ۷۴ درجہ ڈگری پر ۲۱ فٹ شرقاً ہے اور یہ سطحِٔ سمندر سے ۷۰۶ فٹ بلند شہر ہے۔ شہر کو متوازی اضلاع کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اندرون شہر تقریباً۱۱۴۶۱ ایکڑ پر محیط ہے۔ دریائے راوی مشرق کی طرف سے ایک لمبا چکر کاٹتا ہوا شہر کے شمال کی طرف سے گزرتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ دریا شہر کی دیوار کے ساتھ بہتا تھا لیکن ۱۶۶۲ ء میں اس کا رخ بدلنے کی وجہ سے شہر کو لاحق خطرہ کے پیش نظر بادشاہ اورنگزیب نے اس کے کنارے تقریباً۴ میل کے فاصلے تک پختہ اینٹیں اور چونا گارے سے ایک بڑا بند تعمیر کروا دیا جس سے یہ شہر تباہی سے بچا رہا ۔ ہندو بادشاہوں کے دَور میں خانہ جنگیوں اور ہنگامہ آرائیوں کے نتیجے میں یہ شہر ویران ہوگیا پھر ۱۰۲۳ ء میں سلطان محمود غزنوی نے پنجاب کو فتح کرنے کے بعد اس شہر کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور اس کو ازسر نَو آباد کیا اور اپنے چہیتے غلام ملِک ایاز کو یہاں کا گورنر مقرر کردیا۔ ملِک ایاز کی قبر اب بھی رنگ محل شاہ عالَم گیٹ کے اندر مَوجود ہے۔ اکبر اعظم نے لاہور میں ۱۵۸۴ء سے لے کر ۱۵۹۸ء تک قیام کیا اور اس شہر کے گرد ۳۰ فٹ بلند ایک فصیل بنا دی۔ پھر جب رنجیت سنگھ ۱۸۱۲ء کو پنجاب پر قابض ہوا تو یہ فصیل پندرہ فٹ تک رہ گئی۔ انگریزوں کے زمانے میں نہ صرف لاہور کو پنجاب کا دار الحکومت قرار دے دیا گیا بلکہ دہلی بھی اس صوبے کے ماتحت کردیاگیا۔ مغلوں کے زمانے میں اندرونِ شہر سے باہر کچھ مضافات بھی بن گئے تھے جن میں سے موضع مزنگ گڑھی شاہو، قلعہ گوجر سنگھ، اچھرہ ، میاں میر، باغبانپورہ اور شاہدرہ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
اس شہر کے بارہ دروازے اور ایک چھوٹا دروازہ (جس کو موری دروازہ کہتے ہیں) شامل کرکے کل (۱۳) تیرہ دروازے بنتے ہیں۔
1. دہلی دروازہ: یہ دروازہ مشرق کی سمت گویا شہر دہلی کی طرف ہے۔ اسی لئے اس کو دہلی دروازہ کہتے ہیں۔ اس دروازہ سے لوگوں کی آمدو رفت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس دروازے کے باہر لاہور کا ریلوے اسٹیشن بھی ہے۔ مسجد وزیر خان بھی اسی دروازے کے اندر ہے۔
2. اَکبری دروازہ: اس دروازے کو بادشاہِ وقت محمد جلال الدین اکبر المعروف اکبرِ اعظم نے اپنے نام سے موسوم کیا۔ اس دروازے میں ہر قسم کے غلے کی منڈی بھی اکبرِ اعظم نے بنوائی جس میں ہر قسم کے اناج اور غلے کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔
3. موتی دروازہ المعروف موچی دروازہ: یہ دروازہ موتی رام جمعدار جو ملازم اکبرِ اعظم کا تھا ، اس سے موسوم ہے۔ موتی رام ساری زندگی اس دروازے کی حفاظت پر تعیّنات رہا جس کی وجہ سے یہ دروازہ ہمیشہ کیلئے موتی بن گیا۔ سکھوں کے زمانے میں اس کا نام موتی دروازے سے بدل کر موچی دروازہ مشہور ہوگیا۔
4. شاہ عالَمی دروازہ: یہ دروازہ اورنگزیب بادشاہ کے بیٹے اور جانشین شاہ عالَم بہادر شاہ کے نام سے موسوم تھا۔ شاہ عالَم بہادر شاہ نہایت حلیم الطبع بادشاہ تھا۔ اور وہ ۱۷ فروری ۱۷۱۲ء کو فوت ہوا تھا۔
5. لوہاری دروازہ: اصل نام اس کا لاہوری دروازہ ہے ۔ اس دروازے کو خاص لاہور کا دروازہ تصور کیا جاتا ہے۔ جب سلطان محمود غزنوی نے چاہا کہ راجہ جے پال کولَہور سے بے دخل کر کے پنجاب کا علاقہ اپنے ماتحت کرلے تو راجہ جے پال چند ماہ تک اس شہر میں محصور ہو کر لڑتا رہا اور آخر بھاگ گیا۔ محمود غزنوی نے شہر کو آگ لگادی۔ رعایا کو قتل کیا گیا۔ جس سے لاہور شہر بالکل برباد اور ویران ہوگیا۔ آخر جب ملِک ایاز نے پنجاب کا انتظام سنبھالا تو پھر اس شہر کو آباد کیا گیا۔ سب سے پہلے اس شہر کی آبادی اسی محلے سے شروع ہوئی جس کو لاہوری منڈی کہاجاتا ہے اور سب سے پہلے بھی یہی دروازہ تعمیر کیا گیا۔
6. موری دروازہ: یہ دروازہ دوسرے سبھی دروازوں سے چھوٹا ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے جن دنوں میں راجہ جے پال سلطان محمود غزنوی کے ساتھ بر سرِ پَیکار تھا، تو سلطان محمود غزنوی نے اس شہر کو محصور کیا ہوا تھا۔ راجہ تو بھاگ گیا۔ مگر لوگ بدستور لڑتے رہے۔ سلطان محمود غزنوی نے چاہا کہ شہر فتح کرے تو اس موری دروزے کے مقام سے دیواروں کو گرا کر شہر میں داخل ہوگیا۔ جب ملِک ایاز نے اس شہر کو پھر آباد کیا تو فتح کے یادگار کے طور پر اس جگہ دروازہ قائم کردیا یہ شہر کا سب سے چھوٹا دروازہ تھا ۔ پنجابی میں موری دروازے کا مطلب ہے کہ ایسا دروازہ جس کو شہر کے فضلات ، گندگی اور پانی کے نکاس کے لئے استعمال کیا جا تا ہے۔
7. بھاٹی دروازہ : اس دروازے کو راجپوتوں کے قدیم قبیلے بھاٹ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ملِک ایاز کے زمانے میں یہ قوم یہاں آکر آباد ہوئی اور صدہا سال آباد رہی اور انہوں نے یہاں کے حاکم وقت کے ساتھ یہ شرط رکھی تھی کہ ہم اپنا محلہ آباد کرتے ہیں مگر یہ دروازہ ہمارے نام سے موسوم ہوگا۔ اس دروازے کے باہر مغرب کی طرف حضرت داتا گنج بخش ہجویری ؒ کا مزار بھی ہے۔
8. ٹکسالی دروازہ: مسلمان بادشاہوں کے دَورِ حکومت میں اس کے قریب ایک ٹکسال قائم تھی جہاں پر سکے بنائے جاتے تھے۔ اسلئے اس دروازے کا نام ٹکسالی دروازہ مشہور ہوگیا۔
9. روشنائی دروازہ: یہ دروازہ بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کے درمیان واقع ہے۔ چونکہ قلعہ سے شہر جانے کے لئے یہ ایک بڑی گزرگاہ تھی۔ اسی لئے راستہ سے اُمراء، درباری اور شاہی ملازمین یہاں سے گزرنے لگے ۔ رات کو ان لوگوں کے گزرنے کے لئے اس جگہ روشنی کی جاتی تھی۔ اسی لئے یہ روشنی کا دروازہ یعنی روشنائی دروازہ کہلایا جانے لگا۔
10. مستی دروازہ: یہ دروازہ بھی ایک شاہی ملازم مستی بلوچ کے نام سے مشہور ہے۔ جو اِس دروازے کی حفاظت کیلئے مامور تھا۔ اور آخری وقت تک اس دروازے کی نگہبانی کرتا رہا تھا۔ اس لئے شاہی حکم سے یہ دروازہ اس کے نام سے مشہور ہوگیا۔ یہاں پر اکبرِ اعظم کی والدہ مریم مکانی کی ایک مسجد بھی ہے۔
11. کشمیری دروازہ: اس دروازہ کا رُخ کشمیر کی طرف ہے۔ اسی لئے اس دروازے کا نام کشمیری دروازہ مشہور ہوگیا۔ اس دروازے کے اندر کشمیریوں کو آباد کیا گیا تھا۔
12. خضری دروازہ المعروف شیراں والا دروازہ: مشہور ہے کہ زمانہ قدیم میں دریائے راوی شہر کی دیوار کے ساتھ بہتا تھا اور اس دروازے کے ساتھ دریا کا گھاٹ بھی تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے ساتھی حضرت خضرعلیہ السّلام کے نام سے اس دروازے کو منسوب کیا گیا۔ وہ ایک روحانی بزرگ ہیں۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ان کو سمندروں اور دریاؤں پر اختیار حاصل ہے۔ راجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں یہاں ایک پنجرے میں دو پالتو شیر رکھے ہوئے تھے اس دروازے کو شیراں والا دروازہ بھی کہتے ہیں۔
13. یکی دروازہ: یہ دروازہ پیر حضرت یکی شہید کے نام کی وجہ سے مشہور ہوا ۔ کہا جاتا ہے کہ جب بےدین مغلوں نے شمال کی طرف سے حملہ کیا تو یہ بزرگ کمال دلاوری سے اس شہر کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ دروازے پر ان کا سر گردن سے جدا ہوگیا تو جسم بے سر دشمنوں سے لڑتا رہا آخر کار شہر کے ایک حصہ کے قریب گر پڑا ۔ ان کا ایک مزار اس جگہ بنایا گیا جہاں ان کا سر گرا تھا دوسرا اس جگہ تعمیر کیا گیا جہاں ان کا دھڑ گرا تھا۔ اب دونوں قبریں مَوجود ہیں اور زیارت خاص و عام ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 10 تا 14
خطباتِ لاہور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔