شعور کا پہلا دن
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26379
پیدائش کے بعد پہلے روز بچے پر لاشعور کا غلبہ ہوتا ہے شعور ی ورق کے صفحے پر کوئی تحریر نظر نہیں آتی، جیسے جیسے بچہ ماحول میں وقت گزارتا ہے اسی مناسبت سے شعور کے کورے صفحے پر والدین،
خاندان اور ماحول کے نقوش مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ بارہ سال کی عمر میں وہ صفحہ جسے ہم شعور کہہ رہے ہیں اتنا زیادہ روشن ہوجاتا ہے کہ لاشعوری صفحہ دھندلا پڑجاتاہے،لیکن نقوش ختم نہیں ہوتے،اگر شعور کا صفحہ اتنا زیادہ روشن ہوجائے کہ لاشعوری صفحہ کی تحریر نہ پڑھی جاسکے تو مفروضہ حواس کا غلبہ ہوجاتا ہے اور لاشعوری صفحہ کی تحریر سے اس کی نظر ہٹ جاتی ہے اور بالغ ہونے کے بعد وہ لاشعور سے بے خبر ہوجاتاہے۔
بے خبر ہونے کا مطلب لاشعوری تحریر کا مٹ جانا نہیں ہے، لاشعوری تحریر اگر ختم ہوجائے گی تو زندگی کا تسلسل ٹوٹ جائے گا، قدرت نے اس تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے شعوری اور لاشعوری حواس کو نصف نصف تقسیم کر دیا ہے، آدمی جب رات میں داخل ہوتا ہے تو دراصل لاشعور میں داخل ہوتا ہے آدمی جب دن میں داخل ہوتا ہے تو دراصل وہ شعور میں قدم رکھتا ہے۔
پیدائش سے لیکر مرنے تک کی کل عمر میں انسان آدھی زندگی لاشعور اور آدھی زندگی شعور میں گزارتا ہے۔
زندگی میں شعور اور لاشعور دونوں الٹ پلٹ ہوتے رہتے ہیں، شعور کی رفتار نہایت کم اور محدود ہے، لاشعور کی رفتار بہت زیادہ ہے، تخلیقی فارمولوں سے باخبر صوفی حضرات و خواتین کہتے ہیں کہ آدمی ٹائم اسپیس سے کہیں بھی آزاد نہیں ہوتا، آزادی کا مطلب یہ ہے کہ شعور کی رفتار اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ محدودیت ٹوٹنے کا احساس نمایاں ہوجائے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 295 تا 297
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔