شعوری اِستعداد
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=20165
روحانی علوم سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان جس شخص کو مرشد بنائے اس کے بارے میں تصدیق کر لی جائے کہ استاد روحانی علوم جانتا ہے یا نہیں؟
تعلیم و تربیت کے بغیر شعور کی داغ بیل نہیں پڑتی اور نہ لاشعور کی درجہ بندی ہوتی ہے۔شعور اور لاشعور دونوں سے مراد تعلیم و تربیت کا حصول ہے۔
دنیا میں جب کوئی چیز پیدا ہوتی ہے تو اسے اپنی ذات کے احساس کے علاوہ دوسری باتوں کا علم نہیں ہوتا ۔
انسان کی پیدائش کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایاہے کہ:
’’اور ہم نے آدم کو علم الاسماء سکھایا ہے‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے اندر پہلا شعور اس کا علم ہے۔
مثال:ایک شخص کا نام زید ہے لیکن زید کا نام زید کی پیدائش کے بعد رکھا گیا ہے۔پیدائش سے پہلے اس کا کوئی نام معاشرے میں متعارف نہیں تھا۔پیدا ہونے کے بعد زید میں جو پہلا شعور بنا وہ ماں کی قربت ہے یعنی ماں کی قربت بھی علم ہے۔
بچہ ماں کی قربت کے علم کے بعد ماں کا دودھ پیتا رہتا ہے اور ماہ و سال گزرنے کی مناسبت سے شعور میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور شعوری سکت کے مطابق ماں باپ اور خاندان کے افراد زندگی کی ضروریات سے متعلق بچے کے اندرعلوم منتقل کرتے رہتے ہیں۔بالآخر بچہ والدین ، خاندان اور برادری کے شعوری نقوش کو قبول کر کے اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کے شعور میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔ اورپھر شعوری وسعت کے لحاظ سے قوم اور اقوامِ عالم کا شعور بچہ کے شعور کے ساتھ ضرب در ضرب ہو کر ایک شعور لاکھوں شعور کے برابر ہوجاتا ہے۔
قانون یہ ہے کہ: جس شخص میں جتنی زیادہ شعور ی استعداد ذخیرہ ہوجاتی ہے اسی مناسبت سے وہ عالم فاضل اور Geniousہوتا ہے۔
لیکن یہ بات اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے کہ اگر پہلے دن پیدا ہونے والے بچے میں شعور نہ ہو اور شعوری استعداد قبول کرنے کی صلاحیت نہ ہوتو بچہ عالم فاضل نہیں ہوگا اس کی مثال Handicapped بچے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 61 تا 62
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔