یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
سعید روحیں
مکمل کتاب : تجلیات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2991
برائیوں کو مٹانے کی جدوجہد اور بھلائیوں کی ترغیب ہی وہ عمل ہے جو ہمارے وجود کا ضامن ہے۔ اس میں کوتاہی کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو سارے انسانوں کے لئے وجود میں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور خدا پر کامل ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران)
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا ہو گا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم جس غلط روش سے لوگوں کو بچنے کی تلقین کر رہے ہیں اور اس کے برے نتائج سے انہیں خبردار کر رہے ہیں، ہم خود دانستہ یا نا دانستہ طور پر اسی راہ پر چل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرز عمل کی نشاندہی اس طرح کی ہے کہ
’’کیا تم لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو۔‘‘(البقرہ)
اور
’’تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔‘‘ (المصف)
اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے میں ہماری بات میں اسی وقت تاثر پیدا ہو گا جب ہم خود اس دعوت اور تعلیم کا نمونہ ہوں اور ہمارا رابطہ اللہ کے ساتھ ویسا ہی جو ایک حقیقی بندے کا اپنے رب سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ربط کے حصول کا طریقہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بتایا ہے:
ترجمہ:’’اے چادر میں لپٹنے والے! رات میں ’’قیام‘‘ کیجئے مگر کچھ رات، آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کو پڑھیئیہم جلد آپ پر ایک بھاری فرمان ڈالنے والے ہیں۔‘‘ (المزمل)
قیام کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی قربت پر قائم ہو کر اس سے ایسا ربط پیدا کرے کہ اس کی زندگی کا ہر عمل اللہ کی ذات سے وابستہ ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لے۔
جب بندہ اپنے رب سے حقیقی تعلق کو قائم کر لیتا ہے تو وہ غم اور خوف سے نجات حاصل کر کے سکون اور اطمینان کی تصویر بن جاتا ہے۔ اب جب وہ کوئی بات کہتا ہے اور کسی بات کی دعوت دیتا ہے تو باضمیر لوگ اور سعید روحیں اس کی آواز پر لبیک کہتی ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 96 تا 98
یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔