زندگی ایک اطلاع ہے
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9297
عام مشاہدے کی رُو سے زندگی گزارنے کی جو طرزیں مَوجود ہیں یا ہرآدمی زندگی کی جن طرزوں میں سفر کرتا ہے وہ دو ہیں۔
ایک طرز یہ ہے کہ آدمی شعوری حواس میں زندگی کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ ہر تقاضا پورا کرنے کیلئے اُسے جسمانی طور پر محنت اور جدّوجہد کرنا پڑتی ہے۔ جب تک جسمانی اَعضاء اپنا وظیفہ پورا نہیں کرتے اس وقت تک تقاضے کی تکمیل نہیں ہوتی۔ جسمانی اَعضاء سے مراد ہا تھ، پیر، کان، ناک، آنکھیں وغیرہ وغیرہ ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم اس بات سے بھی قطع نظرنہیں کر سکتے کہ جسمانی اَعضاء دماغ کے تابع ہیں۔ دماغ جب تک متحرّک نہیں ہوتا اَعضاء میں حرکت نہیں ہوتی اور دماغ کی حرکت خیال کے تابع ہے۔ جب تک دماغ کے اندر کوئی خیال وارِد نہیں ہوتا اس وقت تک دماغ جسمانی اَعضاء کو کوئی حکم نہیں دیتا، کوئی ترغیب (Inspiration) نہیں دیتا۔
خیال کیا ہے ؟
خیال دراصل تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ایک اِطلاع ہے۔
مثلاً دماغ بتاتا ہے، اب سو جاؤ اس لئے کہ مزید جاگنا جسم کیلئے مناسب نہیں ہے۔ دماغ کہتا ہے کہ اب بیدار ہو جاؤ اس لئے کہ اس سے زیادہ سونا جسمانی کارکردگی کیلئےمُضِر ہے۔ دماغ کہتا ہے کہ کھانا کھاؤ، اگر کھانا نہیں کھایا گیا تو زندگی میں ایندھن بننے والی کیلوریز (Calories) ختم ہو جائیں گی۔ علیٰ ھٰذا القیاس زندگی کے تمام تقاضے پورے کرنے کیلئے دماغ احکامات صادر کرتا رہتا ہے۔ اور ان احکامات کی پیروی پورا جسم کرتا ہے۔ دماغ جو احکامات دیتا ہے اس کا تعلّق اِطلاع سے ہے، لیکن دماغ کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ اِطلاع کہاں سے آرہی ہے؟ دماغ صرف اس حد تک باخبر ہے کہ اُسے اِطلاع ملتی ہے وہ اِطلاع میں جسمانی تقاضوں کے تحت معنی پہنا دیتا ہے اور معنی پہنا کر جسم کے اندر جو مشین فٹ ہے اُس کو اِطلاع دیتا رہتا ہے۔ مشین اس پر عمَل درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے تقاضوں کی اصل بنیاد اِطلاع ہے، اطلاعات میں معنی پہنانے کی دو طرزیں ہیں۔
ایک طرز میں حواس زمان و مکان کے پابند ہیں لیکن دوسری طرزِ میں حواس معنی پہنانے میں زمان و مکان کی حد بندیوں سے آزاد ہے۔
جس طرح جسمانی اَعضاء کو کنڑول کرنے کیلئے جسم کے اندر ایک دماغ ہے اور وہ دماغ اِطلاعات قبول کرکے اس میں معانی پہناتا ہے اُسی طرح روحانی دماغ جن اجزاءِ تر کیبی سےمرکب ہے، وہ اجزاءِ تر کیبی زمان و مکان سے آزاد ہیں۔
مثال : جسمانی دماغ ہمیں یہ اِطلاع دیتا ہے کہ جسم کو اِنرجی حاصِل کرنے کیلئے روٹی کھانے کی ضرورت ہے۔ ہم جب اس اِطلاع کی تکمیل کرتے ہیں تو ہمیں تواتر اور تسلسل کے ساتھ کئی حد بندیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مثلاً ہم گندم بوئیں گے، پھر اُس کی حفاظت کرکے اُس کو پروان چڑھائیں گے، پھر اس کو کاٹ کر بالیوں میں سے الگ کریں گے، پھر چکی پر پِسوائیں گے۔ پھر آٹا گوندھ کر روٹی پکا ئیں گے اور پھر روٹی کھائیں گے۔ یہ جسمانی دماغ کی اِطلاع میں معنی پہنانے کا عمَل ہے۔
اِس کے برعکس روحانی دماغ جب ہمیں کسی چیز کے کھانے کی اِطلاع فراہم کرتا ہے تو ہمیں اِن تمام حد بندیوں سے گزرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جیسے ہی روحانی دماغ میں یہ اِطلاع آئی کہ کچھ کھانا چاہئے، ساتھ ہی اِطلاع میں یہ معانی پہنائے گئے کہ روٹی کھانی چاہئے۔ اور فوراً ہی اس کی تکمیل ہو گئی۔ گندم بونا، کاٹنا، پیسنا، اور روٹی پکانا سب باتیں حذف ہو گئیں۔ روحانی دماغ خواب میں کام کرتا ہے اور مشق کے بعد مراقبہ بن جاتا ہے۔ جس طرح کوئی آدمی روحانی دماغ کی اِطلاع قبول کرکے وسائل کی محتاجی کے بغیر روٹی کھا لیتا ہے۔ اسی طرح کوئی بندہ جو مراقبے کے عمَل سے واقف ہے یا اس کے اندر روحانی دماغ متحرّک ہو گیا ہے تو اس کے ا ندر سے زمان و مکان کی گرفت ٹُوٹ جاتی ہے۔
جس طرح بیداری میں روٹی کھانے کیلئے مختلف مَدارِج سے گزرنا پڑتا ہے، اُسی طرح سفر کرنے کے لیےبھی مختلف مَدارِج سے گزرنا پڑتا ہے۔ مثلاً ہمیں کراچی سے لندن جانا ہے۔ گھر سے باہر نکلیں گے، رکشہ یا ٹیکسی میں بیٹھ کر ایئر پورٹ پہنچیں گے، ہوائی جہاز میں سوار ہوں گے اور فضا میں تیرتے ہُوئے لندن پہنچیں گے۔ لیکن یہی سفر ہم مراقبہ کی حالت میں کریں تو نہ گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت ہو گی، نہ ٹیکسی رکشے کی حاجت پیش آئے گی اور نہ ہوائی جہاز میں بیٹھنا عمَل میں آئے گا۔ مراقبہ میں انسان خیال کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ کراچی میں بیٹھے ہُوئے آدمی نے اس بات کا اِرادہ کیا کہ مجھے دہلی جانا ہے اور وہ سیکنڈ کے ہزارویں حصّہ میں وہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس کی مثال ہر آدمی کے اوپر خواب میں گزرتی ہے۔ ایک آدمی کراچی میں خواب دیکھتا ہے کہ وہ دہلی میں ہے۔ وہ دہلی میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے مزار پر مراقبہ کر رہا ہے۔ دہلی کی فضا سے پوری طرح باخبر اور متأثّر ہے۔ گھر کے کسی آدمی نے پیر ہلا دیا۔ اب وہ کراچی میں مَوجود ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 95 تا 97
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔