یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
زمین پر اندھیرا
مکمل کتاب : تجلیات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2955
نوع انسان کی تاریخ ہمیں ببانگِ دہل بتا رہی ہے کہ زمین پر وہی قومیں حکمت اور دانشوری سے سرفراز کی گئی ہیں جو اللہ کی پھیلائی ہوئی نشانیوں میں غور کرتی ہیں۔ دنیا کی بادشاہت کا سہرا انہیں افراد کے سر سجتا ہے جو اللہ کی دی ہوئی عقل و فہم کو استعمال کرتے ہیں اور عقل و حکمت اور علم و حلم سے خود کو آراستہ کرتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اگر زمین کے پیٹ میں جاری و ساری چشمے سوکھ جائیں تو کون ہے جو انہیں دوبارہ جاری کر سکتا ہے۔
فضاؤں میں رنگینی، زندگی کو تحفظ دینے والی روشنیاں، طرح طرح کی گیسیں، نیلگوں آسمان کی بساط پر ستاروں کی انجمنیں رات کی تاریکی میں روشن چاند، دن کے اجالے کو جلا بخشنے والا سورج، ہوا، معطر معطر خراماں خراماں نسیم سحر، درختوں کی نغمہ سرائی، چڑیوں کی چہکار، بلبل کی صدا، کوئل کی کوک کس نے تخلیق کی ہے؟ کیا ان سب کے اوپر ہمارا کوئی دخل ہے؟ اگر یہ سب ایک مربوط نظام کے تحت قائم نہ رہیں، ہمارے پاس ایسا کون سا ذریعہ ہے جس سے ہم اس نظام کو قائم رکھ سکتے ہیں۔
اگر ان باتوں کو رفعت و عظمت سے تعبیر کر کے اپنی بے بضاعتی کہا جائے تو خود ہمارے جسم میں ایسی بے شمار نشانیاں موجود ہیں جن سے ہم ہرگز ہرگز صرف نظر نہیں کر سکتے۔
ذرا غور کیجئے۔
جسم کے اوپر بال کس طرح چپکے ہوئے ہیں۔ مرد کے چہرے پر داڑھی ہوتی ہے۔ عورت کا چہرہ ملائم اور بالوں سے صاف ہوتا ہے۔ آخر کیوں؟ کیا اس نظام میں ہمارے لئے کوئی نشانی نہیں ہے؟
مرد کے چہرے پر بال مرد کی خوبصورتی ہے اور عورت کا نرم و نازک اور ملائم چہرہ عورت کی خوبصورتی ہے۔ یہی بال جو مرد کے چہرے پر نکلتے ہیں، عورت کے چہرے پر اس لئے نہیں نکلتے کہ ایک مخصوص نظام کے تحت خون کی کثافت ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی بال دراصل خون کی کثافت ہے۔ ذرا غور تو فرمائیں کہ قدرت نے اس کثافت کی قلب ماہیت کر کے بالوں کی شکل میں کس طرح چہرے، سر اور جسم پر چپکا دیا ہے۔ آنکھ کے اندر کی مشینری Machinery کا کھوج لگایا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ہزاروں عضلات اللہ تعالیٰ کے کیمرے میں پرزے بن کر فٹ ہیں۔ دماغ کی کارکردگی پر غور کیجئے تو اندر کی آنکھ دیکھتی ہے کہ بارہ کھرب خلیے (Cells) دماغ میں موجود ہیں۔ اور ہر خلیہ آدمی کے اندر ایک حس(Sense)۔ یہی وہ خلیے ہیں جو ہمارے اندر فکر و خیال کے چراغ روشن کرتے ہیں۔ دل کی پیچیدہ مشینری ایک حکم، ایک توازن، ایک پروگرام کے تحت رواں دواں ہے۔ دل انسانی خلیوں کو متحرک رکھنے کے لئے ایک ایسا انجن ہے جس کے چلانے میں انسانی ارادہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔
آپ نے کبھی سوچا ہے؟
ماں کے پیٹ کے اندھیری کوٹھری میں آپ کی پرورش کس طرح عمل میں آئی ہے اور اس ظلمت کدہ سے سفر کرتے ہوئے ہم کس طرح مینارۂ نور بن جاتے ہیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ حوا کے پیٹ سے آدمی کے بجائے کوئی سانپ، کوئی بندر پیدا ہو جاتا۔بلا شبہ کائنات ایک مربوط نظام کے تحت مسلسل اور متواتر حرکت میں ہے اور جس نظام پر یہ کائنات چل رہی ہے وہ نظام ’’تکوین‘‘ ہے۔
ذرا سوچو، اگر اللہ رات کا دامن پھیلا کر اسے قیامت کے وقت سے ملا دے تو کیا اللہ کے بغیر کوئی اور طاقت ایسی ہے جو تمہیں اس طوالت سے بچا سکے اور اگر خدادن کو قیامت تک طویل کر دے تو کیا اللہ کے بغیر کوئی طاقت ایسی ہے جو تمہیں سکون کی نیند اور رات کی آسودگیاں عطا فرمائے۔
جلی ہوئی خشک، ویران اور بنجر زمین پر جب بارش برستی ہے تو زمین کے اندر سے انگور کی بیل اور کھجور کے درخت اُگ آتے ہیں جو رنگ، خوشبو اور ذائقہ میں الگ الگ ہوتے ہیں۔ یہ کیسا کمال ہے، ایک ہی پانی مختلف ڈائیوں(Dyes) میں جا کر رنگ و روپ اور ذائقوں میں مختلف ہو جاتا ہے۔ کیا یہ بات ہمیں غور و فکر کی طرف مائل نہیں کرتی کہ شہتوت پر آم کیوں نہیں اُگتے اور آم کے درخت پر آڑو کیوں نہیں اُگ آتے اور آڑوؤں کے درخت سے بیر کیوں نہیں اترتے۔
کہکشاؤں میں ہزاروں سورج ہونے کے باوجود رات کو زمین پر اندھیرا کیوں ہو جاتا ہے۔ سائنس نے یہ تو جان لیا ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ سائنس دان یہ بھی کہتے ہیں کہ سورج میں آگ کے الاؤ روشن ہیں مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ کہکشاؤں Galaxiesکی گردش پر کنر ول کس کا ہے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر بڑے سے بڑا سائنس داں مر کیوں جاتا ہے۔ دل کی پیوند کاری کرنے والے سائنٹسٹ کا دل فیل کیوں ہو جاتا ہے۔
ارض و سما کو بار بار دیکھو۔ کیا تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟
حضرت ایوب علیہ السلام اپنی کتاب(ایوب کتاب باب ۲۸،۲۹) میں فرماتے ہیں:
سیلابوں کی گزرگاہیں اور بجلی کی گرج اور چمک کی راہیں کس نے مقرر کیں، کیا تو بادلوں کو پکار سکتا ہے کہ وہ تجھ پر مینہ برسائیں، کیا تو بجلیوں کو اپنے حضور بلا سکتا ہے، دل میں سمجھ اور فہم کس نے عطا کی ہیں اور ہرن کی آزادی کس نے دی؟
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 11 تا 14
یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔