رو شنیوں سے تیار کئے ہو ئے کھانے
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9417
ایک روز جب میں سورج طلوع ہونے سے پہلے مشرق کی طرف منہ کئے سانس کی مشق کررہا تھا تو دماغ میں ایک دریچہ کھلا اور اس دریچہ میں یہ خیال وارِد ہُوا کہ فضا میں سے وہ رَوشنافں اور وہ عَناصِر جن سے چنے تخلیق ہوتے ہیں، میرے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ میں نے جسمِ مثالی (Aura) کی آنکھ سے یہ دیکھا کہ میرے سامنے بہت عمدہ قسم کے چنے رکھے ہُوئے ہیں۔ اور میرا جسمِ مثالی اُن چَنوں کو کھا رہا ہے۔ دوسرے دن میرے اندر سیب کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ پھر دماغ میں ایک دریچہ کھلا اور فضا میں پھیلی ہوئی رَوشناوں جو سیب تشکیل کرتی ہیں ایک جگہ مجتمع ہو کر سیب بن گئیں۔ اور میں نے سیب کھا لیا۔ القصہ مختصر خوردنوش کا یہ سلسلہ متواتر سَترہ روز تک قائم رہا۔ ان سَترہ دنوں میں میرا ذہن کسی کھانے پینے کی چیز کی طرف متوجّہ نہ ہُوا۔ جس چیز کو میرا دل چاہتا تھا یا جسمانی اعتبار سے میرے اندر اِنرجی ذخیرہ کرنے کا تقاضا پیدا ہوتا تھا، میں سانس کے ذریعے اس اِنرجی کو اپنے اند رمنتقل کر لیتا تھا۔ فضاءِ بسیط میں پھیلی ہوئی ان رَوشنویں کے کھانے پینے کے اس عمَل سے میرے اندر قلندر شعور کی آنکھ اس طرح طاقتور ہو گئی تھی کہ پتھر اور اینٹ کی دیواریں باریک کاغذ کی طرح نظر آتی تھیں۔ دُور پرے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ جو شخص سامنے آتا تھا اس کے خیالات میرے ذہن کی اسکرین پر منتقل ہو جاتے تھے۔ اس زمانے میں بڑے ہی عجیب تجربات ہُوئے۔ جو شخص صورت سے پرہیزگار تھا اس کے خیالات کی کثافت سے دماغ متعفّن ہو جاتاتھا اور جو شخص شکل و صورت کے اعتبار سے زاہد اور متقی نہیں تھا اس کے خیالات کی رَو سُبک، ہلکی اور معطر محسوس ہوتی تھی۔ عجائبات کی ایک دنیا رَوشن ہو گئی تھی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 146 تا 147
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔