روزے کا مقصد
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=22468
زندگی تقاضوں کا نام ہے۔ یہ تقاضے ہی ہمارے اندر حواس بناتے ہیں۔ بھوک، پیاس، جنس، ایک دو سرے سے بات کرنے کی خواہش،آپس کا میل جول اور ہزاروں قسم کی دلچسپیاں یہ سب تقاضے ہیں اور ان تقاضوں کا دارو مدار حواس پر ہے۔ حواس اگر تقاضے قبول کر لیتے ہیں تو یہ تقاضے حواس کے اندر جذب ہو کر ہمیں مظاہراتی خدوخال کا علم بخشتے ہیں۔
رمضان کے علاوہ عام دنوں میں ہماری دلچسپیاں مظاہر کے ساتھ زیادہ رہتی ہیں۔ حصولِ معاش میں جدوجہد کرنا اور دنیاوی دوسرے مشاغل میں ہم گھرے رہتے ہیں۔
اس کے بر عکس روزہ ہمیں ایسے نقطے پر لے آتا ہے جہاں سے مظا ہر کی نفی شروع ہو تی ہے۔مثلاً وقت معینہ تک ظاہری حواس سے توجہ ہٹا کر ذہن کو اس بات پر آمادہ کر نا کہ ظاہری حواس کے علاوہ اور بھی حواس ہمارے اندر موجود ہیں جو ہمیں آزاد دنیا (غیب کی دنیا) سے روشناس کرتے ہیں۔روزہ زندگی میں کام کرنے والے ظاہری حواس پر ضرب لگا کر ان کو معطل کر دیتا ہے۔ بھوک پیاس پر کنٹرول، گفتگومیں احتیاط،نیند میں کمی اور چوبیس گھنٹے کسی نہ کسی طرح یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مظاہر کی گرفت سے نکل کر غیب میں سفر کیا جائے۔ یہ تصور غالب رہتا ہے کہ ہم اﷲ کے لئے بھوکے پیاسے ہیں۔
حدیثِ قدسی:
حدیث قدسی میں اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’روزے کی جزا میں خود ہوں‘‘۔
یعنی روزے دار کے اندر وہ حواس کام کرنے لگتے ہیں جن حواس سے انسان اﷲتعالیٰ کی تجلّی کا دیدار کر لیتا ہے۔
اﷲتعالیٰ سے دور کرنے والے حواس سب کے سب مظاہر ہیں اور اﷲتعالیٰ سے قریب کرنے والے حواس سب کے سب غیب ہیں۔مظاہر میں انسان زمان و مکان میں قید ہے اور غیب میں زمانیت اور مکانیت انسان کی پابند ہے۔ جو حواس ہمیں غیب سے روشناس اور متعارف کراتے ہیں قرآن پاک کی زبان میں ان کا نام ’’لیل‘‘ یعنی رات ہے۔
ارشاد ہے کہ:
’’ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں‘‘
(سورۂ آل عمران آیت نمبر۲۷)
دوسری جگہ ارشاد ہے :
’’ہم اُدھیڑ لیتے ہیں رات پر سے دن کو‘‘۔
یعنی حواس ایک ہی ہیں۔ ان میں صرف درجہ بندی ہوتی ہے۔دن کے حواس میں زمان اور مکان کی پابندی ہے لیکن رات کے حواس میں مکانیت اور زمانیت کی پابندی نہیں ہے۔ رات کے یہی حواس غیب میں سفر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور انہی حواس سے انسان برزخ،اعراف، ملائکہ اور ملاءِ اعلیٰ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔
حضرت موسٰی ؑ کے تذکرہ میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
’’اور وعدہ کیا ہم نے موسٰیؑ سے تیس (۳۰)رات کا اور پورا کیا ان کو دس سے تب پوری ہوئی مدّت تیرے رب کی چالیس (۴۰) رات‘‘۔
(سورۂ اعراف آیت نمبر ۱۴۲)
اﷲتعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم نے حضرت موسٰیؑ کو چالیس رات میں تورات (غیبی انکشافات) عطا فرمائی۔اﷲتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے چالیس(۴۰)دن میں وعدہ پورا کیا، صرف رات کا تذکرہ فرمایا ہے۔
حضرت موسٰی ؑ نے چالیس (۴۰) دن اور چالیس(۴۰) رات کوہِ طور پر قیام فرما یا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس دن اور چالیس رات حضرت موسٰی ؑ پر رات کے حواس غالب رہے۔
سیّدناحضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی معراج کے بارے میں اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کو رات ہی رات ادب والی مسجد (مسجد الحرام) سے پرلی مسجد(مسجد الاقصیٰ) تک جس میں ہم نے خوبیاں رکھی ہیں کہ دکھائیں اس کو اپنی قدرت کے نمونے وہی ہے سنتا دیکھتا‘‘۔
(سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر۱)
رات کے حواس (سونے کی حالت ) میں ہم نہ کھاتے ہیں،نہ بات کرتے ہیں اور نہ ہی ارادتاً ذہن کو دنیاوی معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم مظاہراتی پابندی سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں۔
روزے کا پروگرام ہمیں یہی عمل اختیا ر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ روزے میں تقریباً و ہ تمام حواس ہمارے اوپرغالب ہو جاتے ہیں جن کا نام رات ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 151 تا 154
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔