روزہ روح کی بالیدگی کا ذریعہ ہے
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=205
سوال: اکثر پڑھنے اور سننے میں آیا ہے کہ روزہ روح کی بالیدگی کا ذریعہ ہے روزہ روحانی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے لیکن اس بات کا تسلی بخش جواب نہیں دیا جاتا ہے کہ بھوکا رہنا کس طرح روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرکے قرب الٰہی کا باعث بنتا ہے؟
جواب: قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق کائنات میں موجود ہر شئے دو رخ پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “اور ہم نے ہر شئے کو تخلیق کیا جوڑے دہرے” ۔ چنانچہ انسانی حواس بھی دو رخ پر قائم ہیں۔ ایک رخ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ خود کو پابند اور مقید محسوس کرتا ہے۔ قید و بند میں ہمارے اندر جو حواس کام کرتے ہیں وہ ہمیشہ اسفل کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ دوسرا رخ وہ ہے جہاں انسان قید و بند سے آزاد ہے۔
زندگی نام ہے تقاضوں کا۔ یہ تقاضے ہی ہمارے اندر حواس بناتے ہیں۔ بھوک، پیاس، جنس، ایک دوسرے سے بات کرنے کی خواہش، آپس کا میل جول اور ہزاروں قسم کی دل چسپیاں سب کے سب تقاضے ہیں۔ اور ان تقاضوں کا دارومدار حواس پر ہے۔
حواس اگر تقاضے قبول کر لیتے ہیں تو یہ تقاضے حواس کے اندر جذب ہو کر ہمیں مظاہراتی خدوخال کا علم بخشتے ہیں۔ عام دنوں میں ہماری دلچسپیاں مظاہر کے ساتھ زیادہ رہتی ہیں۔ کھانا، پینا، سونا، جاگنا، آرام کرنا، حصول معاش میں جدوجہد کرنا، دنیا کے مسائل سب کے سب مظاہر ہیں۔
عام دنوں کے برعکس روزہ، ہمیں ایسے نقطے پر لے آتا ہے جہاں سے مظاہر کی نفی شروع ہوتی ہے مثلاً وقت معینہ تک ظاہری حواس سے توجہ ہٹا کر ذہن کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ ظاہری حواس کے علاوہ اور بھی حواس ہمارے اندر موجود ہیں جو ہمیں آزاد دنیا(غیب کی دنیا) سے روشناس کرتے ہیں۔ روزہ زندگی میں کام کرنے والے ظاہر حواس پر ضرب لگا کر ان کو معطل کر دیتا ہے۔ بھوک پیاس پر کنٹرول، گفتگو میں احتیاط، نیند میں کمی اور چوبیس گھنٹے کسی نہ کسی طرح یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مظاہر کی گرفت سے نکل کر غیب میں سفر کیا جائے۔
کائنات میں ہر ذی روح کے اندر دو حواس کام کرتے ہیں۔
۱۔ وہ حواس جو اللہ سے قریب کرتے ہیں۔
۲۔ وہ حواس جو اللہ اور بندے کے درمیان فاصلہ بن جاتے ہیں۔
اللہ سے دور کرنے والے حواس سب کے سب مظاہر ہیں اور اللہ سے قریب کرنے والے سب کے سب غیب ہیں۔ مظاہر میں انسان زمان و مکان میں قید و بند ہے اور غیب میں زمانیت اور مکانیت انسان کی پابند ہے۔ جو حواس ہمیں غیب سے روشناس اور متعارف کراتے ہیں۔ قرآن پاک کی زبان میں ان کا نام “لیل‘‘ یعنی رات ہے۔ رات کے حواس ہوں یا دن کے حواس، دونوں ایک ہی ہیں۔ ان میں صرف درجہ بندی ہوتی رہتی ہے۔ دن کے حواس میں زمان اور مکان کی پابندی لازمی ہے لیکن رات کے حواس میں مکانیت اور زمانیت لازمی نہیں۔ رات کے وہی حواس ہیں جو غیب میں سفر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان ہی حواس سے انسان برزخ، اعراف، ملائکہ اور ملاء اعلیٰ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کے تذکرے میں ایک جگہ رب العزت فرماتے ہیں۔” اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰؑ سے تیس رات کا، پورا کیا اس کو دس سے تب پوری ہوئی مدت تیرے رب کی چالیس رات۔”
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ موسیٰؑ کو چالیس رات میں تورات (غیبی انکشافات) عطا فرمائی۔ فرمان خداوندی بہت زیادہ غور و فکر طلب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے چالیس دن میں وعدہ پورا کیا۔ صرف رات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ظاہر ہے جب حضرت موسیٰؑ نے چالیس دن اور چالیس رات کوہ طور پر قیام فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس دن اور چالیس رات حضرت موسیٰؑ پر رات کے حواس غالب رہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معراج کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندہ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف تا کہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔”
رات کے حواس میں یعنی سونے کی حالت میں ہم نہ کھاتے ہیں اور نہ بات کرتے ہیں اور نہ ارادتاً ذہن کو دنیاوی معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مظاہراتی پابندی سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں۔
روزہ کا پروگرام ہمیں یہی عمل اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ روزے میں تقریباً وہ تمام حواس ہمارے اوپر مسلط ہو جاتے ہیں جن کا نام رات ہے۔
گفتگو میں احتیاط اور زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہنا، بات نہ کرنے کا عمل اور زیادہ عبادت ہمیں غیب سے قریب کرتی ہے۔ ذہن کا اس بات پر مرکوز رہنا کہ یہ کام صرف اللہ کے لئے کر رہے ہیں، ذہن کو دنیا کی طرف سے ہٹاتا ہے۔ زیادہ وقت بیدار رہ کر رات(غیب) کے حواس سے قریب ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہی حواس ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کے واقعے میں کیا ہے۔ رمضان کا پورا مہینہ دراصل ایک پروگرام ہے اس بات سے متعلق کہ “انسان اپنی روح اور غیب سے متعارف ہو جائے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو پروگرام عطا کئے ہیں۔”ایک حصول اور دوسرا ترکِ حصول” معاشیات حصول کا اصول بتاتا ہے لیکن ترک کا پروگرام اس سے بہت بڑا ہے اور وہ ایسے اصول سکھاتا ہے جو مظاہر سے آہستہ آہستہ دور لے جاتے ہیں۔ اگرچہ انسان مظاہر میں پھنسا رہتا ہے لیکن اس کی روح مظاہر سے ہٹ جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اللہ سے قریب ہو جاتی ہے۔ یہ پروگرام آپ کو اللہ کے قریب کر دیتا ہے اور اس قدر قریب کر دیتا ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
“میں تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہوں۔”
روزے جو حاصل زندگی کی عمومی خواہشات سے ترک ہیں، حواس کو جلا دیتے ہیں اور حواس کو ایک نقطہ پر مجتمع کرتے ہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ حواس پانچ ہیں۔ ایسا نہیں ہے حواس بہت زیادہ ہیں۔ پانچ ظاہری حواس کے علاوہ پردے میں اور بہت سے حواس ہیں جو “ترک‘‘ سے منکشف ہوتے ہیں۔ ظاہری حواس اور ظاہری اعمال و خواہشات کا ترک انسان کو خود سے قریب کر دیتا ہے۔
جب آپ انتہائی ترک پر ہوتے ہیں یعنی کم بولتے ہیں، کم سوتے ہیں، کم سوچتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو کم سوچنے سے آپ کی فکر کا مجلیٰ ہونا لازمی ہے۔ ایک روشنی آپ کے دماغ میں، دل میں اور سینہ میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ روشنی اس روشنی سے الگ ہے جو ظاہراً حواس میں کام کرتی ہے۔ یہ روشنی آپ کی فکر میں رہنمائی کرتی ہے۔ یہی روشنی ہے جس کے ذریعے آپ بہت سی باتیں جو مستقبل میں ہونے والی ہیں دیکھ سُن اور سمجھ لیتے ہیں، قرآن پاک نے جس رات کا نام “لیلتہ القدر‘‘ رکھا ہے وہ دراصل ترک کا پروگرام ہے جو پورے رمضان شریف میں تکمیل پاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور روزے کی جزاء میں خود ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔” ہم نے نازل کیا اس کو (قرآن پاک کو) لیلتہ القدر میں، لیلتہ القدر محیط ہے ہزار مہینوں کو، اس رات میں ملائکہ اور ارواح اترتی ہیں اپنے رب کے حکم سے اور یہ رات امان اور سلامتی کی رات ہے طلوع فجر تک۔”
فرمان الٰہی کے مطابق لیلتہ القدر ایک ہزار مہینوں کے دن اور رات کے حواس سے افضل ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہماری عام رات کے حواس کی مقدار اس رات میں (جو بہتر ہے ہزار مہینوں سے) ساٹھ ہزار گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایک ہزار مہینوں میں تیس ہزار دن اور تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 21 تا 25
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔