روح اور کمپیوٹر
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9353
ان مندرجات سے ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ انسان کے اندر کوئی کمپیوٹر نَصب ہے جو اس کو زندگی کے مختلف مراحل سے گزرنے کی ہدایات دے رہا ہے۔ کبھی وہ ایسی ہدایات دیتا ہے کہ آدمی رنجیدہ ہو جاتا ہے اور کبھی ایسی اِطلاع دیتا ہے کہ وہ خوش ہو جاتا ہے۔ کبھی اسے پانی پینے کی اِطلاع دی جاتی ہے اور کبھی کھانا کھانے کی۔ کبھی کمپیوٹر اسے اِطلاع دیتا ہے کہ اب اَعصاب میں مزید عمَل کرنے کی صلاحیّت مَوجود نہیں رہی۔ سو جاؤ۔ پھر یہ اِطلاع ملتی ہے کہ اب مزید چارپائی پر لیٹے رہنے اور شعوری حواس میں داخل نہ ہونے سے اَعصاب مضمحل ہو جائیں گے اور آدمی اس اِطلاع کو قبول کرکے بیدار ہو جاتا ہے۔ جب تک دماغ کے اندر نصب شدہ کمپیوٹر کوئی اِطلاع نہیں دیتا، آدمی یا کوئی بھی ذی روح کوئی کام نہیں کر سکتا۔ اس میں انسان، بھیڑ، بکری، کسی جانور، نباتات و جمادات کی کوئی قید نہیں ہے۔ سب کے اندر یہ اِطلاع دینے والی مشین نصب ہے۔ یہ مشین وہی اِطلاع فراہم کرتی ہے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ کمپیوٹر آدمی کی روح ہے۔ مَوجودات میں جتنی ذی روح اور غیر ذی روح ہیں ان سب میں ایک ہی طرح کا کمپیوٹر نصب ہے۔ کوئی مخلوق اس کمپیوٹر کے علم سے واقف نہیں ہے۔ اللہ نے صرف انسان کو اس کمپیوٹر کا علم سکھایا ہے۔
یہی وہ علم ہے جس کو آدم اور فرشتوں کے قصے میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ فرماتا ہے۔ ’’میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘۔ فرشتوں نے کہا۔ ’’یہ تو فساد برپا کرے گا اور ہم آپ کی تسبیح و تقدیس کیلئے کافی ہیں‘‘۔ اللہ نے فرمایا۔ ’’ہم جو جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے‘‘ اور فرشتوں سے کہا۔ ’’اگر تم سچے ہو تو تم اس علم کے بارے میں بتا ؤ‘‘۔ فرشتوں نے عرض کِیا۔ ’’ہم تو صرف وہی جانتے ہیں جو آپ نے ہمیں سِکھا دیا ہے‘‘۔
آدم کی اولاد آدم ہے اور آدم کی اولاد بحیثیت آدم کے اس بات کا مشاہدہ کرتی ہے جن مشاہدات سے آدم گزرا ہے۔ اگر کوئی آدم زاد اس بات کا مشاہدہ نہ کر سکے جس حالت کا مشاہدہ آدم نے کیا یعنی خود کو فرشتوں کا مسجود دیکھنا اللہ اور فرشتوں کے درمیان مکالمہ ہونا، اللہ کا یہ کہنا کہ ہم نے آدم کو اپنی صِفات کا علم سِکھا دیا اور فرشتوں کا یہ کہنا کہ ہم صرف اِس حد تک واقف ہیں جس حد تک آپ نے ہمیں علم عطا کر دیا ہے…. تو وہ ہرگِز آدم کی اولاد کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ اس کی حیثیت اس آدم کی نہیں ہے جس آدم کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ یہ میرا نائب اور خلیفہ ہے۔
اِس گفتگو کا اجمال یہ ہوا کہ آدم زاد اگر ازل میں دی گئی نیابت سے واقف نہیں ہے اور ان واقعات کو اگر اس نے دنیادی زندگی میں نہیں دیکھا تو وہ آدم کی باسعادت اولاد نہیں ہے۔ محض شکل و صورت کی بنا پر اس کو آدم زاد کہہ دیا جائے تو اُس کو ناخَلف اولاد سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی، اِس لئے کہ اگر کوئی بندہ اللہ کے اسماء کا علم نہیں جانتا تو وہ اللہ کا نائب نہیں ہے۔ آدم زاد کو دوسری مخلوقات پر شرف اس لئے حاصِل ہے کہ وہ اسماءِ الٰہیہ کا علم رکھتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 114 تا 116
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔