روحانی علم کو مخفی علم یا علم سینہ کہہ کر کیوں عام نہیں کیا گیا
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=380
سوال: روحانی علم کو مخفی علم یا علم سینہ کہہ کر کیوں عام نہیں کیا گیا؟
جواب: تصوف کے اوپر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں روحانی علوم کا تذکرہ تو کیا گیا لیکن اس علم کو ایک اور ایک دو، دو اور دو چار کی طرح عام نہیں کیا گیا۔ بہت سے رموز و نکات بیان کئے گئے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے رموز و نکات پردے میں اس لئے ہیں کہ ان رموز و نکات کو وہی حضرات سمجھ سکتے ہیں جو منزل رسیدہ ہیں یا جو حضرات راہ سلوک میں سفر کر چکے ہیں۔
ہمارے اسلاف نے یہ بھی فرمایا کہ روحانی علوم چونکہ منتقل ہوتے ہیں اس لئے ان کو محفوظ رہنا چاہئے اور ان کی حفاظت کرنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علوم کا نام علم سینہ رکھ دیا گیا ہے۔ ہمارے اسلاف نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ روحانی علوم حاصل ہونے کے بعد ان کے نتائج (مافوق الفطرت باتوں) کو چھپا لینا چاہئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسانوں کے اندر سوچنے سمجھنے اور علم حاصل کرنے کی صلاحیت اتنی موجود نہیں تھی جتنی صلاحیت آج موجود ہے۔ سائنس کے اس ترقی یافتہ دور سے پہلے دور دراز آوازوں کا پہنچنا کرامت سمجھی جاتی تھی۔ لیکن آج سائنس دانوں نے آواز کا طول موج (Wave Length) دریافت کر لیا ہے۔ خیالات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا بھی کرامت (مافوق الفطرت) بیان کیا جاتا ہے۔
آج کی دنیا میں ہزاروں میل کے فاصلے پر پوری کی پوری تصویر منتقل ہو جاتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں، صرف پچاس سال پہلے لوگوں سے یہ کہا جاتا تھا کہ آدمی روشنیوں کا بنا ہوا ہے تو لوگ مذاق اڑاتے تھے۔ آج سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آدمی لہروں سے مرکب ہے۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے یہ بات بتا دی کہ آدمی لہروں سے مرکب ہے، وہ آدمی کی ایک جگہ سے گزرنے کے بعد بھی تصویر لے لیتے ہیں۔
پہلے زمانے میں دادی اور نانی بچوں کو اڑن کھٹولوں کے قصے سنایا کرتی تھیں کہ ایک اڑن کھٹولا تھا۔ اس پر ایک شہزادی اور شہزادہ بیٹھے اور اڑ گئے۔ نانی اور دادی کے وہی اڑن کھٹولے آج ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ نہ صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ ہم اس میں بیٹھ کر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق سفر بھی کرتے ہیں۔
ان تمام مثالوں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ سائنس کی ترقی سے پہلے نوع انسانی کی صلاحیت اتنی نہیں تھی کہ روحانی رموز و نکات اس کی سمجھ میں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں اور اسلاف نے پہلے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور پھر ان کو وہ علوم منتقل کر دیئے لیکن آج کے دور میں انسان کی دماغی صلاحیت اور سکت فہم اور تفکر اتنا زیادہ طاقتور ہے کہ جو چیزیں پہلے کشف و کرامات کے دائرے میں آتی تھیں آج وہی چیزیں انسان کی عام زندگی میں داخل ہیں۔ جیسے جیسے علوم سے انسان کی سکت بڑھتی گئی اور شعور طاقتور ہو گیا، ذہانت میں اضافہ ہوا، گہری باتوں کو سمجھنے اور جاننے کی سکت بڑھی۔ سائنس کی ترقی سے یہ بہت بڑا فائدہ ہوا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے شعور کی طاقت بڑھی اسی مناسبت سے آدمی کے اندر یقین کی طاقت کمزور ہوتی چلی گئی۔
یقین کی طاقت کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ سے دور ہوتا چلا گیا۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنس کی ترقی کا مطمح نظر زیادہ تر دنیاوی آسائش و آرام کا حصول ہے۔ چونکہ دنیا خود بے یقینی کا سمبل(Symbol) اور فکشن (Fiction) ہے اور مفروضہ حواس کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لئے یہ ترقی بھی ہمارے لئے عذاب بن گئی۔ اگر اس ترقی کی بنیاد ظاہر اسباب کے ساتھ ماورائی صلاحیت کی تلاش ہوتی تو یقین کمزور ہونے کے بجائے طاقتور ہوتا۔ لیکن اس کے باوجو دسائنسی علوم کے پھیلاؤ سے بہرحال اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے اندر ایسے علوم حاصل کرنے کی صلاحیت کا ذوق پیدا ہوا جو ہمیں روحانیت سے قریب کرتے ہیں۔
اب سے پچاس سال پہلے یا سو سال پہلے جو چیز پچاس پچاس، سو سو سال کی ریاضت کے بعد حاصل ہوتی تھی۔ اب وہی چیز ارادے کے اندر یقین مستحکم ہونے سے چند مہینوں اور چند سالوں میں حاصل ہو جاتی ہے۔
ٹیگ: روحانی علوم، تصوف، علم سینہ، رموز و نکات، راہ سلوک، مافوق الفطرت، طول موج، یقین کی طاقت، اللہ سے دوری، مفروضہ حواس، ماورائی صلاحیت، فکشن، سائنسی علوم
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 81 تا 83
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔