روحانی بغدادی قاعدہ
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9349
کسی علم کو سیکھنے کیلئے اس کے الف بے سے واقف ہونا ضروری ہے۔ کوئی آدمی جب تک الف بے کا قاعدہ نہیں پڑھ لیتا، پڑھنا لکھنا نہیں سیکھ سکتا۔
جس طرح ظاہری علوم سیکھنے کیلئے قاعدہ پڑھنا ضروری ہے اسی طرح روحانی علوم سیکھنے کیلئے بھی قاعدہ پڑھنا ضروری ہے۔ فر ق صرف یہ ہے کہ علومِ ظاہری سیکھنے کیلئے الف بے پڑھنا ضروری ہے اور علومِ باطنی سیکھنے کیلئے طرزِ فکر کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ روحانیت سیکھنے کیلئے علومِ ظاہری کی طرح بغدادی قاعدہ اب تک نہیں چھپا۔ یہ ایک ایسا علم ہے جو قاعدوں اور ضابطوں پر تو مشتمل ہے مگرعلمِ ظاہری کی طرح پڑھنے، رٹنے یا قلم سے کاغذ پر مشق کرنے سے حاصِل نہیں ہوتا۔ اس کی آسان مثال بچے کے اندر ماں کی زبان کا منتقل ہونا ہے۔ کوئی ماں مادری زبان سکھانے کیلئے بچے کو الف بے نہیں پڑھاتی۔ لیکن بچہ وہی زبان بولتا ہے جو اس کی ماں بولتی ہے۔ بچے کے اندر اَز خود وہ طرزِ فکر منتقل ہوتی رہتی ہے جو بچے کے ماں باپ کی طرزِ فکر ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بکری کا بچہ گھاس کھاتا ہے، گوشت نہیں کھاتا۔ شیر کا بچہ گوشت کھاتا ہے، گھاس نہیں کھاتا، کبوتر کا بچہ نہ گھاس کھاتا ہے نہ گوشت کھاتا ہے۔ دانہ چگتا ہے۔ آدمی کا بچہ گوشت بھی کھاتا ہے۔ مٹی بھی کھاتا ہے، جڑ بھی کھاتا ہے، لکڑی بھی کھاتا ہے، پتھر بھی کھاتا ہے۔ آدمی کا بچہ یہ سب چیزیں اس لئے کھاتا ہے کیونکہ اُس کے ماں باپ کی غذا میں یہ سب چیزیں شامل ہیں۔ آدمی کی طرح اگر شیر بھی یہ سب چیزیں کھاتا تو اس کے بچوں کی بھی یہی خوراک ہوتی۔ کھانا، پینا، شکا ر کرنا اور زند گی کے دوسرے عوامِل بچے کے اندر ماں باپ سے منتقل ہوتے ہیں۔ یعنی ان سب چیزوں کو سیکھنے کیلئے کسی ابتدائی کتاب یا قاعدے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ بات بھی تفکر طلب ہے کہ ہر مخلوق زبان رکھتی ہے اور ایک دوسرے کو اپنی زبان میں جذبات و احساسات سے مطّلع کرتی ہے۔ مُرغی کو جب یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ اس کے بچے چِیل اٹھا لے جائے گی تو وہ ایک مخصوص آواز نکا لتی ہے اور سارے بچے اس کے پروں میں سمٹ آتے ہیں۔ علیٰ ھٰذا القیاس، ہر نَوع اپنی اپنی آواز جانتی ہیں اور یہ زبان اس کی نسل میں رائج ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ گفتگو کا ایک انداز اور بھی ہے جس سے ہر شخص کسی نہ کسی وقت دو چار ہوتا ہے اور ہر شخص اس اندازِ گفتگو سے واقف ہے۔ وہ ہے اشاروں کی زبان۔ ایک باپ اپنے بچے سے کوئی بات منوانا چاہتا ہے اور آنکھوں کے ایک مخصوص انداز سے بچے کی طرف دیکھتا ہے، بچہ یہ بات سمجھ لیتا ہے۔ ماں بچے کے رونے سے یہ بات سمجھ جاتی ہے کہ اب بچہ بھوک سے رو رہا ہے یا وہ تکلیف میں مبتلا ہے۔ اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔
آپ اپنے دوستوں کے ساتھ کمرے میں بیٹھے ہیں وہاں اس قسم کا ماحول ہے یا اس قسم کی گفتگو ہو رہی ہے کہ جس کے بارے میں آپ کا ذہن یہ ہے کہ بچے اس گفتگو کو نہ سنیں یا بچے کا اس ماحول میں ہونا مناسب نہیں ہے، جیسے ہی بچہ کمرے میں داخل ہوتا ہے آپ اُس کی طرف دیکھتے ہیں اور ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ تم یہاں نہ آؤ۔ آپ گردن ہلاتے ہیں، نہ کچھ بولتے ہیں اور نہ کوئی واضح اشارہ کرتے ہیں لیکن آپ کے دماغ میں مَوجود خیال سے بچہ واقف ہو جاتا ہے۔ بچہ پوری طرح آپ کی بات سمجھ کر کمرے سے چلا جاتا ہے اور پھر واپس نہیں آتا۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کا کوئی عزیز دُور رہتا ہے۔ وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہو اور آپ پریشان ہو جاتے ہیں اور یہ ساری پریشانیاں حقیقت بن کے آپ کے سامنے آ جاتی ہیں۔ کبھی یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ فلاں دوست سے ملاقات نہیں ہوئی۔ آپ باہر نکلتے ہیں اور دوست سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ بیٹھے بیٹھے ایک دم کسی حادثے سے متعلّق ایک فلم متحرّک ہو جاتی ہے۔ اُس فلم کے متحرّک ہونے سے دماغ پر اتنا وزن اور دباؤ پڑتا ہے کہ اَعصاب ٹُوٹتے ہُوئے محسوس ہوتے ہیں۔ آدمی نڈھال ہو جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بغیر کسی وجہ اور بغیر کسی سبب کے دماغ کے اندر پھلجھڑیاں سی پُھوٹنے لگتی ہیں اور آدمی خوش ہو جاتا ہے۔ بظاہر خوش ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، لیکن خوشی کے تأثّر کو وہ نظر انداز نہیں کر سکتا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 112 تا 114
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔