رنگوں کی دنیا
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9273
ہم جب زمین کے اوپر مَوجود نِت نئی تخلیقات پر تفکر کرتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ تخلیق کا عمَل ظاہر بین نظروں سے دیکھا جائے تو ایک نظر آتا ہے۔ مثلاً ہم کسی درخت کی پیدائش کے بارے میں غور کرتے ہیں تو ہمیں زمین کے اوپر مَوجود تمام درختوں کی پیدائش کا لامتناہی سلسلہ ایک ہی طریقے پر قائم نظر آتا ہے۔ درخت چھوٹا ہو، بڑا ہو، تَناوَر ہو، بیل کی شکل میں ہو یا جڑی بو ٹیوں کی صورت میں، پیدائش کا سلسلہ ایک ہی طریقے پر قائم نظر آتا ہے۔ زمین اپنی کوکھ میں سے یا پیٹ میں اس بیج کو نشوونمادّیتی ہے۔ اور بیج کی نشوونما مکمل ہونے کے بعد درخت وُجود میں آ جاتا ہے۔ لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے، باوُجودیکہ پیدائش کا طریقہ ایک ہے، ہر درخت اپنی ایک اِنفرادیت رکھتا ہے اور درخت کی یہ اِنفرادیت نامکمل نہیں ہوتی۔ مثلاً آم اور بادام کے درخت کو دیکھا جائے تو درخت کی حیثیت سے وہ دونوں ایک ہیں۔ دونوں کی پیدائش کا طریقہ بھی ایک ہے۔ دونوں کا قد و قامت بھی ایک جیسا ہے لیکن آم کے درخت کا پھل اور بادام کے درخت کا پھل بالکل الگ الگ شکل و صورت میں مَوجود ہیں۔ اسی طرح جب ہم پھولوں کی طرف متوجّہ ہوتے ہیں تو پھول کا ہر درخت اپنی ایک اِنفرادی حیثیت رکھتا ہے اور اس اِنفرادی حیثیت میں اس کے پتے بھی الگ ہوتے ہیں۔ اس کی شاخیں بھی الگ ہوتی ہیں۔ اس کے اندر پھول بھی الگ ہوتے ہیں اور پھولوں کی بےشمار قسموں پر جب نظر جاتی ہے تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے ہر پھول میں الگ خوشبو ہے۔ پھولوں میں ایسے گلینڈز ہوتے ہیں جن سے مختلف قسم کا خوشبو دار تیل نکل کر ہَوا میں اڑتا رہتا ہے اور اس طرح فضا میں خوشبو پھیلتی رہتی ہے۔ پھولوں کے گلینڈز میں خوشبو دار تیل کا ذخیرہ سونگھنے سے دماغ معطر ہو جاتا ہے۔ پھول اگر رنگین ہیں تو ہر درخت کے پھول الگ الگ رنگ لیے ہوتے ہیں۔ رنگ سازی کا عالم یہ ہے کہ کوئی پھول اس قدر سرخ ہوتا ہے اس کے اوپر نظر جم جاتی ہے۔ پھولوں کے رنگوں میں کہیں سفید، کہیں اُودا رنگ ہوتا ہے۔ بےشمار رنگ زمین میں پُھوٹتے رہتے ہیں۔ اللہ کی شان بھی کیسی عجیب شان ہے، زمین ایک ہے، ہَوا ایک ہے، پانی ایک ہے، پیدائش کا طریقہ ایک ہے لیکن ہر چیز ایک دوسرے سے مختلف ہے، اور دوسری بات جو بہت زیادہ توجّہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والی شئے میں کسی نہ کسی رنگ کا غلبہ ضرور ہوتا ہے، کوئی ایسی چیز مَوجود نہیں جو بے رنگ ہو۔ یہ رنگ اور بے رنگ دراصل خالق اور مخلوق کے درمیان ایک پردہ ہے۔ خالق کو مخلوق سے جو چیز الگ ممتاز کرتی ہے وہ رنگ ہے۔ انسان کے اندر جب تخلیقی صِفات کا مُظاہرہ ہوتا ہے یا اللہ اپنے فضل و کرم سے تخلیقی صلاحیّتوں کا علم بیدار کر دیتا ہے تو بندے کے اوپر یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ کوئی بے رنگ خیال جب رنگین ہو جاتا ہے تو تخلیق عمَل میں آ جاتی ہے۔ اللہ بحیثیت خالق کے وراءِ بے رنگ ہے۔
اللہ نے جب کائنات کو بنانے کو اِرادہ فرمایا تو جو کچھ اللہ کے ذہن میں مَوجود تھا اس کا اِرادہ کیا اور کہا ‘‘ہو جا ‘‘ اور وہ چیز ہو گئی۔ یعنی وراءِ بے رنگ سے نُزول کرکے اللہ کے خیال نے ایک رنگ اِختیار کیا جس کوسمجھنے کیلئے روحانیت نے بے رنگی کا نام دیا۔ یعنی ایسا رنگ جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ پھر اس بے رنگی میں حرکت پیدا ہوئی تو رنگین وُجود تخلیق میں آگیا اور یہی وُجود مختلف صورتوں میں اور مختلف رنگوں میں اور مختلف صلاحیّتوں کے ساتھ مجسم اور متشکّل ہو گیا۔
کائنات کی تخلیق میں بنیادی عَنصر یا بنیادی مسالا رنگ ہے، اور رنگوں کا امتزاج ہی تخلیقی فارمولے ہیں۔ رنگوں کی مناسبت سے یا ان رنگوں کی کمی بیشی سے مختلف تخلیقات وُجود میں آتی ہیں۔ انسان جو مخلوقات میں اللہ کی سب سے اچھی تخلیق ہے اور جس کو اللہ نے تخلیقی حیثیت میں اپنا نائب قرار دیا ہے، اس کی اصلیت بھی رنگوں سے مرکب ہے۔ اس تخلیق کو سمجھنے کے لیے روحانیت نے چھ دائرے متعیّن کئے ہیں۔ اور ہر دائرہ الگ الگ رنگوں سے مرکّب ہے۔ روحانیت میں ان دائروں کو جب رَوشنی سے معمور کیا جاتا ہےتو ‘‘لَطائف کا رنگین ہونا ‘‘ کہتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 87 تا 89
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔