ذات کا مطالعہ

مکمل کتاب : قلندر شعور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=8840

ہم جب اپنے آپ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک محدود اور فنا ہونے والا جسم ہے اور یہی ہماری زندگی کی پہچان ہے۔ یہ جسم جو ہمیں نظر آتا ہے۔ اس کے اجزاءِ ترکیبی کثافت، گندگی، تعفّن اور سڑاند ہیں۔ اس سڑاند کی بنیاد اس نظریے پر قائم ہے کہ ہر آد می یہ سمجھتا ہے کہ میں مادّہ ہوں اور میں اس مادّی دنیا کی پیدائش ہوں۔ یہ محدود نظریہ ہر آدمی کو کسی ایک مقام پر محدود کر دیتا ہے اور ہر آدمی ایک محدودیت کے تانے بانے میں خود کو گرفتار کر لیتا ہے اور اس طرح محدود اور پابند نظر یے کی بنیاد پڑجاتی ہے۔ زمین پر بسنے والا ہر آدمی جب اپنا تذکرہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں، میں ہندو ہوں، میں پارسی ہوں، میں عیسائی ہوں، حالانکہ روح کا کوئی نام نہیں رکھا جا سکتا۔ رَوشنی ہر جگہ رَوشنی ہے چاہے وہ عرب میں ہو، عجم میں ہو، یا یورپ میں ہو یا ایشیا کے کسی حصّے میں۔
اللہ کا نظام کچھ اس طرح قائم ہے، اس دنیا میں جو اللہ کا پیغام آیا وہ اپنے الفاظ کے ساتھ قائم ہے۔ عیسائیوں کیلئے بائیبل کے الفاظ مذہب کا درجہ رکھتے ہیں اور مسلمان کیلئے قرآن مذہب کا پیش رَو ہے۔ ہندو بھگوت گیتا کے الفاظ کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ سب کتابیں دراصل خدا کے بر گزیدہ بندوں کی وہ آوازیں ہیں جو رَوشنی بن کر تمام عالَم میں پھیل گئی ہیں۔
ہم جب کائنات کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو بھی ہمیں یہی پتہ چلتا ہے کہ:
ہماری کائنات اللہ کی آواز ہے۔ اللہ نے جب اپنی آواز میں ‘‘کُن‘‘ کہا تو ساری کائنات وُجود میں آ گئی۔
خدا جب اپنا تعارف کرواتا ہے تو کہتا ہے کہ:
میں مخلوق کا دوست ہوں۔
جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کو نہیں بھولتا اسی طرح خدا بھی اپنی مخلوق کو کبھی فراموش نہیں کرتا۔
وہ خدا…. جو ہمارا ربّ ہے….
جو…. ہمارے لئے ہر طرح کے وسائل پیدا کرتا ہے…. اور
ہمیں زندگی کے نئے نئے مراحل اور نئے نئے تجربات سے گزارتا رہتا ہے…. بلا شک و شبہ ہمارا دوست ہے۔
مقدس کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعدجو انکشاف ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ خدا اپنی مخلوق کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا، چاہے ہمارے جسمانی خدّوخال کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔ نسلی سلسلے کی طرف جب تفکر کیا جاتا ہے تو ہم یہ دیکھتے ہیں تخلیق ایک پروگرام کے مطابق عمَل میں آرہی ہے۔ جب ہم” زمین ماں‘‘ کے پیٹ میں کوئی بیج ڈالتے ہیں تو وہ بیج نشوونما پا کر ایک درخت بن جاتا ہے۔ بیج جب زمین کے اندر ڈال دیا جاتا ہے تو وہ زمین سے پانی کو جذب کرتا ہے اور پانی بیج میں مَوجود ایک سوراخ Micropyle) ) کے ذریعے بیج کے اندر پہنچ کر سوئے ہُوئے بیج (Dormant Seed) کی نشوونما کرتا ہے۔ بیج کے دَالوں (Cotyledons) کے اندر ننھے ننھے پتے اور چھوٹی ڈَنڈی میں خلیاتی تقسیم وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ننھے پتے بڑھ کر تَنے کی شکل اِختیار کر لیتے ہیں اور ڈَنڈی بڑھ کر جڑ بن جاتی ہے۔ جڑ زمین میں داخل ہو کر نہ صرف زمین سے اس نئے پودے کیلئے پانی اورغذا جذب کرتی ہے بلکہ اس پودے کیلئے زمین میں مُستقل ٹھہراؤ کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔ اس کے برعکس تنا زمین کے مخالفت سمت اور رَوشنی کی جانب بڑھنے لگتا ہے۔ پودےکی ابتدائی عمر میں پودے کی دالیں جو اس نومولود پودے کیلئے غذا کو ذخیرہ کئے ہوتی ہیں، پودےکو غذا فراہم کرتی ہیں۔ جب پودا سورج کی رَوشنی میں ضیائی تالیف (Photosynthesis) کے ذریعے خود اپنی غذا تیار کرنے لگتا ہے تو یہ دالیں خشک ہو کر ختم ہو جاتی ہیں اور پودا نشوونما کے بعد زمین پر ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔
اسی طرح ایک باپ یا ایک شوہر اپنی زوجہ یا اپنی کھیتی میں بیج ڈالتا ہے تو زمین کی طرح وہاں بھی نشوونما کا سلسلہ ایک بیج کی طرح قائم ہے۔ سب سے پہلے ابتدائی درجہ میں ایک نرم و نازک تنا وُجود میں آتا ہے، جو Notochord کہلاتا ہے۔ نشوونما کا یہ سلسلہ اِرتِقائی منازل طے کرکے جب تکمیل کو پہنچتا ہے، بالکل اس طرح جیسے زمین اپنے پیٹ سے کسی درخت کو باہر نکالتی ہے، ماں کے پیٹ سے بچہ تَولد ہوتا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 14 تا 16

قلندر شعور کے مضامین :

0.01 - رباعی 0.02 - بِسمِ اللہِ الرّحمٰنِ الرّحِیم 1 - معرفت کی مشعل 2 - قلندر کا مقام 3 - جسم اور روح 4 - جیتی جاگتی تصویر 5 - ذات کا مطالعہ 6 - تخلیقی سانچے 7 - جنسی کشش کا قانون 8 - ظاہر اور باطن 9 - نَوعی اِشتراک 10 - زمین دوز چوہے 11 - طاقت ور حِسّیات 12 - سُراغ رساں کتے 13 - اَنڈوں کی تقسیم 14 - بجلی کی دریافت سے پہلے 15 - بارش کی آواز 16 - منافق لومڑی 17 - کیلے کے باغات 18 - ایک ترکیب 19 - شیر کی عقیدت 20 - اَنا کی لہریں 21 - خاموش گفتگو 22 - ایک لا شعور 23 - مثالی معاشرہ 24 - شہد کیسے بنتا ہے؟ 25 - فہم و فراست 26 - عقل مند چیونٹی 27 - فرماں رَوا چیونٹی 28 - شہد بھری چیونٹیاں 29 - باغبان چیونٹیاں 30 - مزدور چیونٹیاں 31 - انجینئر چیونٹیاں 32 - درزی چیونٹیاں 33 - سائنس دان چیونٹیاں 34 - ٹائم اسپیس سے آزاد چیونٹی 35 - قاصد پرندہ 36 - لہروں پر سفر 37 - ایجادات کا قانون 38 - اللہ کی سنّت 39 - لازمانیت (Timelessness) 40 - جِبِلّی اور فِطری تقاضے 41 - إستغناء 42 - کائناتی فلم 43 - ظرف اور مقدّر 44 - سات چور 45 - ٹوکری میں حلوہ 46 - اسباق کی دستاویز 47 - قومی اور اِنفرادی زندگی 48 - انبیاء کی طرزِ فکر 49 - اللہ کی عادت 50 - عمل اور نیّت 51 - زمین کے اندر بیج کی نشوونما 52 - اللہ کی ذَیلی تخلیق 53 - صحیح تعریف 54 - کائنات کی رکنیت 55 - جنّت دوزخ 56 - توکّل اور بھروسہ 57 - قلندر شعور اسکول 58 - سونا کھاؤ 59 - آٹومیٹک مشین 60 - انسان، وقت اور کھلونا 61 - آسمان سے نوٹ گرا 62 - ساٹھ روپے 63 - گاؤں میں مرغ پلاؤ 64 - مچھلی مل جائے گی؟ 65 - پرندوں کا رزق 66 - درخت اور گھاس 67 - مزدور برادری 68 - آدم و حوّا کی تخلیق 69 - لہروں کا نظام 70 - رنگوں کی دنیا 71 - روشنیوں کے چھ قمقمے 72 - ترکِ دنیا کیا ہے 73 - زمان و مکان 74 - خواب اور مراقبہ 75 - مراقبہ کی قسمیں 76 - زندگی ایک اطلاع ہے 77 - مراقبہ کی چار کلاسیں 78 - پیدا ہونے سے پہلے کی زندگی 79 - چھپا ہوا خزانہ 80 - لوحِ محفوظ 81 - اللہ کی تجلّی 82 - کائنات پر حکمرانی 83 - روشنی کی چار نہریں 84 - نیابت اور خلافت 85 - آدم اور ملائکہ 86 - دوربین آنکھ 87 - گوشت پوست کا وجود 88 - اللہ میاں کی جیل 89 - روحانی بغدادی قاعدہ 90 - روح اور کمپیوٹر 91 - سائنس اور خرقِ عادات 92 - قانون 93 - معاشرہ اور عقیدہ 94 - دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ 95 - مذہب 96 - سائنسی نظریہ 97 - تخلیقی فارمولے 98 - رنگوں کی تعداد گیارہ ہزار ہے 99 - آدمی کے اندر بجلی کا بہاؤ 100 - وقت کی نفی 101 - آکسیجن اور جسمانی نظام 102 - دو سَو سال کی نیند 103 - سانس کے دو رُخ 104 - توانائی اور روح 105 - زندگی میں سانس کا عمل دخل 106 - رو شنیوں سے تیار کئے ہو ئے کھانے 107 - روشنیوں کے گودام 108 - رنگین شعاعیں 109 - کرنوں میں حلقے 110 - برقی رَو کیمرہ 111 - اَعصابی نظام 112 - مراقبہ
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)