دو پیروں اور چار پیروں سے چلنے والے جانور
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=164
دو پیروں اور چار پیروں سے چلنے والے جانور
جانور دو ہیں۔ ایک جانور پیروں سے چلنے والا ہے اور دوسرا دو پیروں سے چلنے والا ہے۔ اڑنے والا جانور اور تیرنے والا جانور بھی چار پیروں سے چلنے والے جانوروں میں شامل ہے۔ اس لئے کہ وہ پَر بھی استعمال کرتا ہے اور پیر بھی۔ نیز اس کے اڑنے کی صورت بھی وہی ہوتی ہے جو چار پیروں سے چلنے والے جانور کی ہوتی ہے۔ دو پیروں سے چلنے والا جانور آدمی ہے۔
چار پیروں سے چلنے والا جانور، اڑنے والا جانور، تیرنے والا جانور آسمانی رنگ کو تمام جسم میں یکساں قبول کرتے ہیں اسی وجہ سے عام طور پر ان میں جبلت کام کرتی ہے، فکر کام نہیں کرتی یا زیادہ سے زیادہ انہیں سکھایا جاتا ہے لیکن وہ بھی فکر کے دائرے میں نہیں آتا۔
جن چیزوں کی انہیں اپنی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے صرف ان چیزوں کو قبول کرتے ہیں، ان میں زیادہ غیر ضروری چیزوں سے یہ واسطہ نہیں رکھتے، جن چیزوں کی انہیں ضرورت ہوتی ہے ان کا تعلق زیادہ تر آسمانی رنگ کی لہروں سے ہوتا ہے۔
دو پیروں سے چلنے والا جانور یعنی آدمی سب سے پہلے آسمانی رنگ کا مخلوط یعنی بہت سے ملے ہوئے رنگوں کو اپنے بالوں اور سر میں قبول کرتا ہے اور اس رنگ کا مخلوط پیوست ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جتنے خیالات، کیفیات اور محسوسات وغیرہ اس رنگ کے مخلوط سے اس کے دماغ کو متاثر کرتے ہیں وہ اتنا ہی متاثر ہوتا ہے۔
دماغ میں کھربوں خانے ہوتے ہیں اور ان میں سے برقی رو گزرتی رہتی ہے، اسی برقی رو کے ذریعے خیالات، شعور اور تحت الشعور سے گزرتے رہتے ہیں اور اس سے بہت زیادہ لاشعور میں۔
دماغ کا ایک خانہ وہ ہے جس میں برقی رو فوٹو لیتی رہتی ہے اور تقسیم کرتی رہتی ہے، یہ فوٹو بہت ہی زیادہ تاریک ہوتا ہے یا بہت ہی زیادہ چمکدار۔
ایک دوسرا خانہ ہے جس میں کچھ اہم باتیں ہوتی ہیں لیکن وہ اتنی اہم نہیں ہوتیں کہ سالہاسال گزرنے کے بعد بھی یاد آ جائیں ، ایک تیسرا خانہ اس سے زیادہ اہم باتوں کو جذب کر لیتا ہے، وہ بشرط ِموقع کبھی کبھی یاد آ جاتی ہیں۔ ایک چوتھا خانہ معمولات(Routine Chores) کا جس کے ذریعہ آدمی عمل کرتا ہے لیکن اس میں ارادہ شامل نہیں ہوتا، پانچواں خانہ وہ ہے جس میں گزری ہوئی باتیں اچانک یاد آ جاتی ہیں جن کا زندگی کے آپس کے تاروپور سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
منشاء یہ ہے کہ ایک بات یاد آئی، دوسری بات ساتھ ہی ایسی یاد آئی جس سے پہلے بات کا کبھی کوئی تعلق نہیں تھا، ایک چھٹا خانہ ایسا ہے جس کی یا تو کوئی بات یاد نہیں آتی اور اگر یاد آتی ہے تو فوراً اس کے ساتھ ہی عمل ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے۔ کسی پرندے کا خیال آیا، خیال آتے ہی عملاً وہ پرندہ سامنے ہے، ساتواں خانہ اور ہے جس کو عام اصطلاح میں حافظہ (Memory) کہتے ہیں۔
دماغ میں مخلوط آسمانی رنگ آنے سے اور پیوست ہونے سے خیالات، کیفیات، محسوسات وغیرہ برابر بدلتے رہتے ہیں، اس کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ اس رنگ کے سائے ہلکے بھاری یعنی طرح طرح کے اپنا اثر کم و بیش پیدا کرتے ہیں اور فوراً اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں تا کہ دوسرے سائے ان کی جگہ لے سکیں، بہت سے سائے جنہوں نے جگہ چھوڑ دی ہے محسوسات بن جاتے ہیں اس لئے کہ وہ گہرے ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے خیالات کی صورتیں منتشر ہو جاتی ہیں۔ رفتہ رفتہ انسان ان خیالات کو ملانا سیکھ لیتا ہے ان میں سے جن خیالات کو بالکل کاٹ دیتا ہے وہ حذف ہو جاتے ہیں اور جو جذب کر لیتا ہے وہ عمل بن جاتے ہیں، یہ سائے اسی طرح کام کرتے رہتے ہیں، انہی سایوں کے ذریعہ انسان رنج و راحت حاصل کرتا ہے۔ کبھی وہ رنجیدہ اور بہت رنجیدہ ہو جاتا ہے، کبھی وہ خوش اور بہت خوش ہو جاتا ہے۔ یہ سائے جس قدر جسم سے خارج ہو سکتے ہیں ، ہو جاتے ہیں لیکن جتنے جسم کے اندر پیوست ہو جاتے ہیں ، وہ اعصابی نظام بن جاتے ہیں۔
آدمی دو پیر سے چلتا ہے اس لئے سب سے پہلے ان سایوں کا اثر اس کا دماغ قبول کرتا ہے، دماغ کی چند حرکات معین ہیں جن سے وہ اعصابی نظام میں کام لیتا ہے۔ سر کا پچھلا حصہ یعنی ام الدماغ اور حرام مغز اس اعصابی نظام میں خاص کام کرتا ہے، رنج و خوشی دونوں سے اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے، رنج و خوشی دراصل بجلی کی ایک رو ہے جو دماغ سے داخل ہو کر تمام اعصاب میں سما جاتی ہے۔ یہ لہریں دو پیروں سے چلنے والے جانور کے دماغ میں داخل ہوتی ہیں۔ ان لہروں کا وزن، تجزیہ، فضا، ہر جگہ بالکل یکساں نہیں ہوتا بلکہ جگہ جگہ تقسیم ہوتا ہے اور اس تقسیم کار میں وہ لہروں کے کچھ سائے زیادہ جذب کرتا ہے اور کچھ سائے کم ۔ انسان کے دماغ میں لاشمار خلیے (Cells) بھی کام کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان لاشمار خلیوں میں سائے کی لہریں جو فضا سے بنتی ہیں وہ اپنے اثرات کو برقرار رکھیں، کبھی ان کے اثرات بہت کم رہ جاتے ہیں، کبھی ان کے اثرات بالکل نہیں رہتے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ یہ تمام خلئے جودماغ سے تعلق رکھتے ہیں کسی وقت خالی نہیں رہتے۔ کبھی ان کا رخ ہوا کی طرف زیادہ ہوتا ہے، کبھی پانی کی طرف، کبھی غذا کی طرف اور کبھی تنہا روشنی کی طرف، اسی روشنی سے رنگ اور رنگوں کی ملاوٹی شکلیں بنتی ہیں اور خرچ ہوتی رہتی ہیں۔
ٹیگ: دوپیروں والے جانور، چار پیروں والے جانور، آسمانی رنگ، شعور، تحت الشعور، حافظہ، میموری، خیالات،
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 4 تا 6
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔