یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
دوست
مکمل کتاب : تجلیات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=3032
ایک بار حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سے ایک شخص گزرا۔ اس وقت کچھ لوگ آپﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہ! مجھے اس شخص سے محبت ہے اور یہ تعلق خاطر محض اللہ کے لئے ہے۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا۔ ’’کیا تم نے اس شخص کو یہ بات بتا دی ہے؟‘‘ اور فرمایا۔ ’’جاؤ، اسے بتا دو کہ تم اس سے اللہ کے لئے محبت کرتے ہو۔‘‘وہ شخص اٹھا اور اس شخص سے اپنا مخلصانہ جذبات کا اظہار کیا۔ اس کے جواب میں اس شخص نے کہا۔ ’’تجھ سے وہ ذات محبت کرے جس کی خاطر تو مجھ سے محبت کرتا ہے۔‘‘
دوستی کو مستحکم قدروں پر چلانے اور تعلقات کو نتیجہ خیز اور استوار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دوستوں کے ذاتی معاملات کو نتیجہ خیز اور استوار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دوستوں کے ذاتی معاملات میں دل چسپی لیں اور ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھ کر ان کے حل کرنے میں بھرپور تعاون اور جدوجہد کریں۔ دوست داری کا تقاضا ہے کہ آپ اپنے دوست کے اہل خاندان سے بھی قربت رکھیں اور انہیں اپنے قرابت داروں کی طرح سمجھیں۔
دوستی میں ہمیشہ میانہ روی اختیار کرنی چاہئے۔ ایسی سرد مہری کا مظاہرہ نہ کیجئے کہ دوست کا دل ٹوٹ جائے اور نہ جوش محبت میں اتنا آگے بڑھیئے کہ اس کو نبھا نہ سکیں۔ زندگی میں توازن، اعتدال اور مستقبل مزاجی کامیابی کی علامتیں ہیں۔
حضرت علیؓ کا فرمان ہے:
’’اپنے دوست سے دوستی میں نرمی اور میانہ روی اختیار کرو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی وقت تمہارا دشمن بن جائے۔ اسی طرح دشمن سے دشمنی میں نرمی اور اعتدال رویہ اختیار کرو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی وقت تمہارا دوست بن جائے۔‘‘
اپنے دوست کو کبھی اپنے سے کم تر نہ سمجھئے۔ خیر خواہی اور دل جوئی کا تقاضا ہے کہ آپ اپنے دوست کو زیادہ سے زیادہ اونچا اٹھانے کی کوشش کریں۔
نبئ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے:
’’دین سر تا سر خیر خواہی ہے۔ خیر خواہی یہ ہے کہ بندہ جو اپنے لئے پسند کرے وہ اپنے دوست کے لئے بھی پسند کرے۔ یہ بات ہر آدمی جانتا ہے کہ کوئی شخص اپنے لئے برا نہیں چاہتا۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 181 تا 181
یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔