دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9369
آدمی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے اللہ کے عطا کئے ہُوئے علوم کو خود ساختہ اور غلط بنیادوں پر رکھا اور اُن سے انکاری ہو گیا۔ اللہ نے ہر علم کی بنیاد رَوشنی کو قرار دیا ہے۔ آدمی کو چاہئے یہ تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رَوشنیوں کی قسمیں اور رَوشنیوں کا طرزعمل معلوم کرتا لیکن اس نے کبھی اس طرف توجّہ نہیں کی اور یہ چیز ہمیشہ پردے میں رہی۔ آدمی نے اس پردے میں جھانکنے کی کوشش اس لئے نہیں کی کہ یا تو اس کے سامنے رَوشنیوں کا کوئی پردہ مَوجود نہیں تھا یا اس نے رَوشنیوں کے پردے کی طرف کبھی توجّہ ہی نہیں کی۔ وہ یہ قاعدے معلوم کرنے کی طرف متوجّہ ہی نہیں ہُوا جو رَوشنیوں کے خلَط ملَط سے تعلّق رکھتے ہیں۔ اگر آدمی یہ طرزِ عمَل اِختیار کرتا تو اس کے دماغی خلیوں کی ٹُوٹ پُھوٹ کم سے کم ہو سکتی تھی۔ اس حالت میں وہ زیادہ سے زیادہ یقین کی طرف قدم اٹھاتا اور شکوک اسے اتنا پریشان نہ کرتے جتنا کہ اب اسے پریشان کیے ہوئے ہیں۔ اس کی تحریکات میں جو عمَلی رکاوٹیں واقع ہوئی ہیں وہ کم سے کم ہوتیں…. لیکن ایسا نہیں ہُوا۔ اس نے رَوشنی کی قِسمیں معلوم نہیں کیں۔ نہ رَوشنیوں کی طبیعت کا حال معلوم کرنے کی کوشش کی۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ رَوشنیاں بھی طبیعت اور ماہیت رکھتی ہیں اور رَوشنیوں میں رحجانات بھی مَوجود ہیں۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ رَوشنیاں ہی اس کی زندگی ہیں اور اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ وہ صرف مٹی کے پتلے سے واقف ہیں ایسے پتلے سے جس کے اندر اس کی اپنی کوئی زندگی مَوجود نہیں ہے۔ جس کو اللہ نے سڑی ہوئی مٹی سے بنایا ہے۔ اس کے اندر اپنی ذاتی کوئی حقیقت مَوجود نہیں ہے۔ حقیقت جو اللہ نے روح کی شکل میں پھونکی ہے۔
رَوشنیوں کے عمَل سے نا واقفیت، اللہ کے اس بیان سے منحرف کرتی ہے….. جہاں تک انحراف واقع ہوتا ہے وہاں تک وہم اور شک بڑھتا ہے…. ایمان اور یقین ٹُوٹ جاتے ہیں….
ماہرِ روحانیت یقین کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
‘‘یقین وہ عقیدہ ہے جس میں شک نہ ہو۔ ‘‘
اِرادہ یا یقین کی کمزوری دراصل شک کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ جب تک خیالات میں تذبذب رہے گا، یقین میں کبھی بھی پختگی نہیں آئے گی۔ مَظاہر اپنے وُجود کیلئے یقین کے پابند ہیں کیونکہ کوئی خیال یقین کی رَوشنااں حاصِل کرکے مظہر بنتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 122 تا 123
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔