دل نے جو دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=341
پیغمبرِ اسلام سیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اﷲ نے ایسے وقت میں اپنے حضور طلب فرمایا۔ جب روئے زمین پر ان کے لئے عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ چہیتی، جان نثار بیوی اور مشفق چچا بھی دنیا میں نہیں تھے۔
قراۤن میں ارشاد ہے:
ترجمہ:
قسم ہے تارے کی جب گرے۔
بہکا نہیں تمہارا رفیق اور بے راہ نہیں چلا۔
اور نہیں بولتا اپنے چاؤ سے۔
یہ تو حکم ہے جو پہنچتا ہے۔
اس کو سکھایا زبردست قوتوں والے نے۔
زور اۤور نے پھر سیدھا بیٹھا۔
اور وہ تھا اونچے کنارے اۤسمان کے پھر نزدیک ہوا اور خوب اتر اۤیا۔
پھر رہ گیا فرق دو کمان کا میانہ یا اس سے بھی نزدیک۔
پھر باتیں کیں اﷲ نے اپنے بندے سے جو باتیں کیں۔
جھوٹ نہ دیکھا دل نے، جو دیکھا۔
اب تم کیا اس سے جھگڑتے ہو، اس پر جو اس نے دیکھا۔
اور اس کو اس نے دیکھا ہے ایک دوسرے اُتارے میں۔ (نجم۔۱ تا۱۳ )
اگلی صبح سیّدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب گذشتہ رات کے واقعات قریش مکہ کو سنائے تو دل کے اندھے لوگوں نے اۤپؐ کا تمسخر اڑایا اور اۤپؐ کے گرد جمع ہوکر طرح طرح کے سوالات کرنے لگے۔ ۔ رؤسائے قریش نے بیت المقدس کی بناوٹ اور طرزِ تعمیر سے متعلق سوالات کئے۔ سیّدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیت المقدس گذشتہ رات سے قبل کبھی نہ دیکھا تھا۔ اﷲ نے اۤپؐ کو سرخرو فرمایا اور منکرین کے سوالوں کو صحیح صحیح جواب دیا۔
حضرت ابو بکرؓ صدیق سے ایک مشرک نے پوچھا کیا ایک رات میں کوئی شخص مکہ سے بیت المقدس اۤنے جانے کا سفر طے کرسکتا ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے جو اس وقت تک واقعۂ معراج سے باخبر نہ تھے، انکار میں جواب دیا۔ اس پر مشرکین نے کہا کہ تمہارا پیغمبرؐ تو یہی کہتا ہے کہ اس نے راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصٰی تک اور پھر وہاں سے اۤسمانوں تک کا سفر کیا ہے۔ سیّدنا ابو بکرؓ نے فرمایا کہ میں حضرت محمد الرّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حق گو زبان سے اگرچہ یہ بات ابھی تک نہیں سنی لیکن جیسا کہ تم کہ رہے ہو کہ یہ ان کا بیان ہے تو میں تصدیق کرتا ہوں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 92 تا 94
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔