دعوتِ حق
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19659
اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کیا ان لوگوں نے آسمان اور زمین کے نظام پرکبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا۔ (آنکھیں کھول کر دیکھنے سے مراد باطنی نظر سے دیکھنا ہے جو روح کی آنکھ ہے) اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید زندہ رہنے کی جومہلت دی گئی ہے اسکے پورے ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ ہمیں ہدایت دیتا ہے کہ اﷲ قادر مطلق ہے وہ جسے چاہے عزت اور شرف سے نواز دے اور جسے چاہے ذلیل و خوار کردے۔اﷲ عجز و انکساری کو پسند فرماتا ہے۔
تکبر اور غرور اﷲ کے لئے ناپسندیدہ اعمال ہیں۔ناپسندیدہ اعمال جب حد سے تجاوز کرجاتے ہیں تو قدرت نافرمانوں کو نیست و نابود کردیتی ہے۔ہر انسان اپنے عمل کا خود جوابدہ ہے اس لئے باپ کی بزرگی بیٹے کی نا فرمانی کا مداوا نہیں بن سکتی ہے اور نہ بیٹے کی سعادت باپ کی سرکشی کا بدل ہوسکتی ہے۔
حضرت ہُود علیہ السلام کے قصے میں بیان ہوا ہے۔
’’ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے اونچی عمارتوں والے عادِ اِرَم سے کیا سلوک کیا؟‘‘
(سورۂ حجرآیت نمبر ۶۔۷)
’’اور عاد کی طرف بھیجا ان کا بھائی ہود ؑ بولا: اے قوم بندگی کرو اﷲ کی،کوئی نہیں تمہارا سہارا اس کے سوا،کیا تم کو ڈر نہیں؟‘‘
(سورۂ اعراف آیت نمبر ۶۵)
گمراہ قوم نے تعجّب سے پوچھا تم ہمارے پاس صرف اس لئے آئے ہو کہ ہم صرف ایک ہی اﷲ کی عبادت کریں اور انہیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ،دادا کرتے تھے۔ حضرت ہود علیہ السلام نے کہا! کیوں جھگڑتے ہو مجھ سے ناموں پر رکھ لئے ہیں تم نے اور تمہارے باپ دادا نے،نہیں اتاری اﷲ نے ان کی کوئی سند۔قومِ عادنے ہود ؑکی تعلیمات سے بیزاری کا اظہار کیا،بولے:
’’ہم کو برابر ہے تُو نصیحت کرے یا نہ کرے‘‘۔ (سورۃ ا لشعراء آیت نمبر ۱۳۶)
حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے کہا :
’’ یاد کرو اس ذات کو جس نے تمہیں وہ کچھ دیا ہے جو تم چاہتے ہو۔تمہیں جانور دیئے،اولادیں دیں،باغ و شجر دئیے اور تمہارا یہ حال ہے کہ تم اﷲ کے ساتھ انہیں شریک کرتے ہو جو تمہیں نفع و نقصان نہیں پہنچاسکتے۔عظمت و خوشحالی کا مظاہرہ کرنے کے لئے تم نے کئی کئی منزلہ عالیشان عمارتیں بنائی ہیں،دولت اور ثروت ہونے کے باوجود تمہیں اطمینانِ قلب نہیں ہے۔اس لئے کہ تم نے مادی دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے‘‘۔
(سورۃ الشعراء آیت نمبر ۱۳۲۔۱۳۵)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 13 تا 14
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔