دعوتِ حق
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=318
سورۃ الشعراء کی اۤیت۲۱۴ ”وانزر عشیرتک الاقربین” یعنی ”اپنے قریبی رشتہ داروں کو دینِ اسلام کی دعوت دیں۔ ” کہ نازل ہونے کے بعد حضورؐ نے اپنے چچاؤں اور ان کی اولاد کو ایک ضیافت میں جمع کیا اور پیغامِ حق سنایا۔ ابولہب یہ سن کر بولا۔ تمہارا خاندان سارے عرب سے مقابلے کی تاب نہیں رکھتا۔ نادانی کی باتیں نہ کرو۔ تمہارے لئے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے۔ اگر تم اپنی بات پر قائم رہے تو یہ بہت اۤسان ہوگا کہ قریش کے سارے لوگ تم پر ٹوٹ پڑیں اور بقیہ عرب بھی ان کی مدد کریں اور میں سب سے زیادہ حق دار ہوں کہ تمہیں پکڑ لوں۔ اس پر نبی کریمؐ نے خاموشی اختیار کرلی اور اس مجلس میں کوئی گفتگو نہ کی۔
کچھ عرصہ بعد حضورؐ نے انہیں دوبارہ جمع کیا اور اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناأ کے بعد اپنی رسالت کا اعلان کیا۔ لیکن اہلِ خاندان نے بات سنی ان سنی کردی اور کسی بات کو قبول نہیں کیا۔
قرابت داروں کو تبلیغ کے حکم پر جب عملدراۤمد ہوگیا تو سورۃ الحجر کی اۤیت نازل ہوئی:
ترجمہ: ”سو سنادے کھول کر جو تجھ کو حکم ہوا اور دھیان نہ کر شرک والوں کا۔ ” (اۤیت۹۴ )
حکم کی تعمیل میں سیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اہلِ مکہ کو دعوت دی کہ وہ مقررہ دن کوہِ صفا پر جمع ہوں کیونکہ وہ ایک اہم بات ان تک پہنچانا چاہتے ہیں؟ سب ہی لوگ جن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے کوہِ صفا پر جمع ہوگئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بلندی پر کھڑے ہوکر حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ”اے لوگوں! اگر میں کوئی اہم بات تمہارے لئے بیان کروں تو کیا تم اسے قبول کرلوگے؟” حاضرین نے ایک اۤواز ہوکر کہا ”اے محمدؐ! ہمیں تمہاری بات پر یقین ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تم راست گو ہو اور کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے۔ ” حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہا ”اے لوگو! اﷲ نے مجھے رسالت کے لئے منتخب کر لیا ہے اور میں اس کی طرف سے مامور ہوں تاکہ میں تمہیں احکامِ خداوندی کو ماننے اور اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی دعوت دوں اور اگر تم لوگ اﷲ کی اطاعت سے منہ پھیرو گے تو تم پر اس کا غضب نازل ہوگا۔ ” جب حضورؐ نے ان کلمات کو ادا کیا تو ابی لہب نے چلاتے ہوئےکہا ”اے محمدؐ! کیا تو نے یہی بات سنانے کے لئے ہمیں یہاں بلایا تھا؟ اور کیا تونے یہ نہیں سوچا کہ ان باتوں کی اتنی اہمیت نہیں کہ ہم اپنا کاروبار چھوڑ کر یہاں چلے اۤئیں۔ ” پھر ابی لہب وہاں موجود لوگوں سے مخاطب ہوا ”اس کی باتوں پر کان مت دھرو اور اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ محمدؐ تو اپنی عقل کھو بیٹھا ہے۔ ” لوگ منتشر ہوگئے اور اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ حضورؐ کے پاس صرف دو لوگ رہ گئے ایک حضرت علیؓ اور دوسرے حضرت زیدؓ۔ اس واقعہ کے بعد حضورؐ کے قریبی رشتہ داروں نے ان کے خلاف محاذ اۤرائی شروع کردی اور انہیں طعن و تمسخر کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ جب جماعتِ قریش اور خاص طور پر ابولہب اور اسکی بیوی امِ جمیل نے یہ دیکھا کہ ان کی زبان کے تیر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بظاہر اثر انداز نہیں ہو رہے تو وہ لوگ پیغمبرِ اسلام کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچانے پر اتر اۤئے۔ اگرچہ ابولہب اور اس کی بیوی کا تعلق مکہ کے ”مہذّب” طبقے سے تھا لیکن اخلاقی طور پر وہ انتہائی پست درجے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ دونوں حضورؐ کی طرف پتھر پھینکتے تھے جس کے باعث ان کے گھر کی کھڑکیاں جو لکڑی کی بنی ہوئی تھیں ٹوٹ جاتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ پیسے دے کر اۤوارہ بچوں کے ذریعے حضورؐ کے گھر پتھراؤ کرواتے تھے اور مردہ جانوروں کی اۤلائشیں اور ان کی گندگی کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں پھینکواتے تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب بھی گھر سے باہر نکلتے تو امِ جمیل اور ابولہب کے اکسانے پر گلی کوچوں کے بچے اور دوسرے اۤوارہ لوگ انہیں پتھروں کا نشانہ بناتے۔ جس سے حضورؐ کے سر اور چہرے سے خون بہنے لگتا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دامن سے خون پونچھتے اور جب گھر واپس پہونچتے تو حضرت خدیجہؓ انہیں اس حال میں دیکھ کر دکھ بھرے لہجے میں پوچھتیں، ”یامحمدؐ! کیا اۤج بہت رنج اٹھایا ہے؟” حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جواب میں کہتے ”اے خدیجہؓ! جب انسان یہ جان لے کہ وہ کس مقصد کے لئے اور کس کی خاطر رنج اٹھا رہا ہے تو اسے دکھ اور درد کا احساس نہیں رہتا۔ ” ابولہب کی بیوی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی راہ میں نوکیلے کانٹے بچھاتی تھی تاکہ وہ ان کے پاؤں میں چبھ جائیں اور جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام گھر پہنچ کر اپنے پاؤں سے کانٹے نکالتے تو خون جاری ہوجاتا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان والوں نے انہیں اتنی تکالیف پہنچائیں کہ ایک دن دلبرداشتہ ہوکر خدا کے حضور عرض کیا ”اے اﷲ تو بہتر جانتا ہے ان میں سے کوئی بھی تیرے دین کو قبول کرنے پر تیار نہیں”۔ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ کی دلجوئی کی:
ترجمہ: ”سو سنادے کھول کر جو تجھ کو حکم ہوا اور دھیان نہ کر شرک والوں کا۔ ہم بس ہیں تیری طرف سے ٹھٹھے کرنے والوں کو۔ جو ٹھہراتے ہیں اﷲ کے ساتھ اور کسی کی بندگی، سو اۤگے معلوم کریں گے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تیرا جی رکتا ہے ان کی باتوں سے۔ سو تو یاد کر خوبیاں اپنے رب کی اور رہ سجدہ کرنے والوں میں اور بندگی کر اپنے رب کی جب تک پہنچے تجھے یقین۔ ” (الحجر۹۴ تا۹۹ )
ابی لہب نے جب یہ دیکھا کہ سیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام حق بات کہنے سے نہیں رکتے تو اس نے کمینگی کی انتہا کردی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیّہؓ اور حضرت اُمِ کلثومؓ ابولہب کے گھر بیاہی ہوئی تھیں۔ حضورؐ کو رنج میں مبتلا کرنے کے لئے اس نے اپنے دونوں بیٹوں سے انہیں طلاق دلواکر باپ کے گھر بھیج دیا اور کہلا بھیجا کہ ابولہب کے بیٹوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان کی بیویاں ”محمدؐ” جیسے شخص کی بیٹیاں ہوں۔ کیونکہ اۤج محمدؐ تمام لوگوں کی نفرت اور مذمت کا شکار ہے اور ایسے شخص کے ساتھ تعلقات رکھنا مکہ میں شرم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حضرت خدیجہؓ اس واقعہ سے بہت دلبرداشتہ ہوئیں لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں تسلّی دیتے ہوئے صبر کی تلقین کی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک باپ تھے اور دوسرے تمام والدین کی طرح انہیں بھی اپنی بچیوں کا گھربار اجڑنے پر صدمہ پہنچا تھا لیکن خاندانی دشمنی اور طرح طرح کے نفسیاتی دباؤ کے باوجود ان کے قدم نہ ڈگمگائے اور انہوں نے خدا کے دین کی تبلیغ میں ایک لحظہ بھی فرو گزاشت نہیں کیا۔ بہرحال بعثت کے چوتھے سال تک ان کے قریبی رشتہ دار اور قبیلۂ قریش کے دوسرے افراد انہیں مختلف قسم کی اذیتیں پہنچاتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عملی طور پر اپنے دین کی منادی شروع کردی تھی اور وہ اپنے رشتہ داروں اور قبیلۂ قریش کے دوسرے افراد سے فرماتے تھے:
”ان خداؤں کی پرستش نہ کرو جو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں۔ صرف اس خدا کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں اور جو ساری کائنات کا مالک ہے۔ ” حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریبی رشتہ دار اور قبیلۂ قریش کے دوسرے افراد ان سے یہ پوچھتے کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم ان خداؤں کی پوجا کرنا چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے اۤباؤ اجداد کرتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب میں فرمایا۔ ”ہاں! خود ساختہ خداؤ کی پرستش چھوڑ دو۔ ایک اﷲ وحدہ لاشریک کی پرستش و عبادت کرو۔ ”
یہ جواب سن کر قریش کا غیض و غضب شدت اختیار کرگیا اور وہ فیصلہ کن اقدام کے بارے میں سوچنے لگے۔ حضورؐ دن کے وقت اپنے گھر سے نکل کر خانہ کعبہ کی طرف تشریف لے جاتے تھے اور وہاں خدا کی عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے۔ قریش نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پابندی عائد کردی کہ وہ ”بیت اﷲ” میں داخل نہیں ہوسکتے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 31 تا 37
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔