خیبر کی فتح
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=406
مسلمانوں اور اہل مکہ کے درمیان صلحِ حدیبیہ کے معاہدے کے باوجود خیبر کے یہودیوں نے اپنی عداوت بھرے طور طریقے نہیں بدلے۔وہ لوگ بدستور مسلمانوں کے تجارتی قافلوں کو خیبر کے مضافات سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے تاکہ مسلمان شمالی ملکوں سے اقتصادی رابطہ قائم نہ کر سکیں۔
یہود کی ریشہ دوانیوں کو ختم کرنے کے لئے سیّدنا علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فیصلہ کیا کہ خیبر کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ خیبر میں اۤٹھ جنگی قلعے تھے۔ اسلامی فوج کے سپہ سالار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود تھے۔ لیکن خیبر کی خراب اۤب و ہوا کی وجہ سے حضورؐ بیمار ہوگئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فوج کی کمان سنبھال لی اور یہودیوں پر حملہ کیا۔ لیکن شدید مزاحمت کے باعث کامیابی نہیں ہوئی۔ خراب موسم سے حضرت ابوبکرؓ بھی متاثر ہوئے اور وہ بھی بیمار ہوگئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ان کی جگہ حضرت عمرؓ کو فوج کی قیادت سونپ دی ۔ مگر مضبوط قلعوں پر کوئی ضرب نہیں پڑسکی۔ حضرت عمر ؓ بھی بیمار ہوگئے۔
سیّدنا علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فوج کی قیادت سنبھالنے کے لئے حضرت علی ؓ کو بلوایا۔ وہ اۤشوبِ چشم (اۤنکھوں کے درد) میں مبتلا تھے اور ان کی اۤنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ انہوں نے یہ ذمہ داری قبول کرلی اور نطات نامی قلعہ پر چڑھائی کردی۔
قلعہ نطات پر غلبہ پانے کے بعد حضرت علیؓ نے ناعم نامی قلعہ کو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا۔جنگ خیبر کے دوران حضرت علیؓ نے دس دنوں میں چار قلعوں کو تسخیر کیا۔ جبکہ بقیہ قلعوں کے رہنے والوں نے خود ہی ہتھیار ڈال دیئے۔
خیبر کی فتح میں مسلمانوں کو وافر مقدار میں غنیمت حاصل ہوئی۔ اس میں ہتھیار اور خوردنی اشیاء وافر مقدار میں تھیں ۔ فتح خیبر کے بعد پیغمبر اسلامؐ نے یہودیوں کے ساتھ مہربانی اور عفوو درگزر فرمایا۔ انہیں اجازت دے دی گئی کہ چاہیں تو خیبر چھوڑ کر چلے جائیں اور اپنے ساتھ گھریلو سامان لے جاسکتے ہیں۔ کھجوریں ،بھیڑیں اور دوسرا غلہ لے جانے کی اجازت نہیں۔
جو یہودی خیبر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے انہیں وہاں رہنے کی اجازت مل گئی اور یہ رعایت بھی حاصل ہوگئی کہ وہ اپنا سابقہ کاروبار جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی تمام مقدس کتابیں اور دوسرے اہم کاغذات بھی لوٹا دیئے گئے اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے تعلقات اتنے اچھے ہوگئے کہ ایک یہودی عورت نے اعلان کیا کہ میں اپنے ہاتھوں سے کھانا پکا کر پیغمبر اسلامؐ کے لئے بھیجوں گی۔اس عورت کا نام زینب بن حرث تھا۔ اس نے ایک دنبہ ذبح کروایا اور دونوں رانیں بریان کرتے وقت ان میں زہر ملا دیا اور وہ کھانا پیغمبراسلامؐ کو بھیجوادیا۔ جب بریان شدہ گوشت سیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پیش کیا گیا تو اۤپؐ کے پاس ایک صحابی بیٹھے تھے جن کا نام بشیرؓ بن براء تھا۔ بشیرؓ بن براء نے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹا، چبایا اور نگل گئے لیکن پیغمبر اسلامؐ نے پہلا لقمہ چباتے ہی گوشت تھوک دیا اور بشیرؓ بن براء کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا : ”یہ گوشت مت کھاؤ اس میں زہر ملا ہوا ہے۔” بشیرؓ بن براء گوشت کا جو ٹکٹا نگل چکے تھے اس نے اپنا اثر دکھایا اور جلد ہی ان کی موت واقع ہوگئی۔ زینب بن حرث کو گرفتار کرلیاگیااور اس سے پوچھا گیا، ”کیا زہر اۤلود گوشت تم نے بھیجا تھا؟” اس عورت نے اعتراف کرلیا اور کہا، ” میں نے یہ سوچ کر گوشت میں زہر ملا یا تھا کہ اگر محمدؐ فرستادہ خدا ہیں اور خدا کے سچے نبی ہیں تو وہ اس گوشت کو ہرگزتناول نہیں کریں گے اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ لیکن اگر وہ اللہ کے رسول نہیں ہیں تو گوشت کھا کر مرجائیں گے۔”
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 159 تا 162
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔