خلاء
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=21143
خلاء ایک تانا بانا ہے اس تانے بانے میں مخلوق نقش ہے۔ جیسے کپڑے پر ایمبرائیڈری (EMBRIODERY )یا قالین پر شیر بُنا ہواہوتا ہے۔خلاء کا دوسرا رخ محض تانا ہے اس پر بھی مخلوق کے خدوخال نقش ہیں۔خلاء کا تیسرا رخ ایسی لہروں سے مرکب ہے جس میں تانا بانا نظر نہیں آتا۔
تینوں مخلوقات میں لمس کا احساس ہے، خوش ہونے اور ناخوش ہونے کے جذبات ہیں لیکن یہ احساس کہیں بھاری اور کہیں لطیف ہے، جہاں بھاری اور بہت بھاری ہے وہاں کشش ثقل ہے۔ جہاں ہلکا ہے وہاں کشش ثقل تو ہے لیکن کشش ثقل خلاء کا سفر کرنے میں مزاحم نہیں ہوتی، جہاں لطافت ہے وہاں کشش ثقلGravityختم ہوجاتی ہے۔
تینوں مخلوقات میں ہر مخلوق کے اندر لطیف حس موجود ہے، صرف درجہ بندی کا فرق ہے۔
ایک مخلوق کے اوپر کثافت کا پردہ زیادہ ہے۔
دوسری مخلوق پر کثافت کا پردہ کم ہے۔
تیسری مخلوق پر کثافت کا پردہ نہیں ہے۔
دونوں مخلوقات تیسری مخلوق کی طرح کثافت کے پردے اور تاریکی کے خول سے خود کو آزاد کردیں تووہ اپنے اندر اﷲ کا نور دیکھ لیتی ہیں۔
قرآن حکیم میں ہے:
’’ اﷲ آسمانوں اور زمین کا نورہے اس نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے۔ قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارہ ہے۔زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے۔ نہ شرقی ہے نہ غربی ہے قریب ہے کہ روشن ہوجائے اگرچہ آگ نے اسے نہ چھوا ہو، نور علیٰ نورہے۔ اﷲ جسے چاہتا ہے اپنے نور کو دکھا دیتا ہے۔ اور اﷲ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اﷲ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘
(سورۃ نورآیت نمبر ۳۵)
روحانی مسافر (سالک )جب راستہ کے نشیب و فراز سے گزرتا ہے تو اس کے شعور میں ایک جھماکا ہوتا ہے۔ اور اس کی باطنی آنکھ کھل جاتی ہے۔
تصوف رہنمائی کرتا ہے کہ اﷲ سے دوستی کی شرط یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرے جو اﷲ کوپسند ہے۔ اچھا انسان وہی کام کرکے خوش ہوتا ہے جس سے اﷲ خوش ہوتاہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 72 تا 73
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔