یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
حقوق العباد
مکمل کتاب : تجلیات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=3045
قیامت کے روز اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ’’اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا۔ تو نے میری مزاج پرسی نہیں کی، میری عبادت نہیں کی۔‘‘
بندہ کہے گا۔ ’’پروردگار عالم! آپ ساری کائنات کے رب ہیں، بھلا میں آپ کی عیادت کیسے کرتا!‘‘
اللہ فرمائے گا۔ ’’میرا فلاں بندہ بیمار پڑا، تو اس کی عیادت کو نہیں گیا۔ اگر تو اس کی مزاج پرسی کے لئے جاتا تو مجھے پاتا۔‘‘
اللہ رب کائنات کے دوست، اللہ کے پیغام رساں، نور اول، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے:
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔
لوگوں نے پوچھا۔’’یا رسول اللہ! وہ کون کون سے حقوق ہیں؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ’’جب تم مسلمان بھائی سے ملو تو اس کو سلام کرو۔ جب وہ تمہیں دعوت کے لئے بلائے تو اس کی دعوت قبول کرو۔ جب وہ تم سے مشورے کا طالب ہو تو اس کی خیر خواہی کرو اور نیک مشورہ دو۔ جب اس کو چھینک آئے اور وہ ’’الحمدللہ‘‘ کہے تو اس کے جواب میں کہو ’’یرحمک اللہ‘‘۔ جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ۔‘‘
حضرت عائشہ بنت سعدؓ بیان کرتی ہیں کہ میرے والد نے اپنا قصہ سنایا کہ میں ایک بار مکے میں سخت بیمار پڑا۔ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ تو میں نے پوچھا، یا رسول اللہ! میں کافی مال چھوڑ رہا ہوں اور میری طرف ایک ہی بچی ہے۔ کیا میں اپنے مال میں سے دو تہائی کی وصیت کر جاؤں اور ایک تہائی بچی کے لئے چھوڑ جاؤں؟
فرمایا۔ نہیں۔ میں نے عرض کیا، آدھے مال کے لئے وصیت کر جاؤں اور آدھا بچی کے لئے چھوڑ جاؤں؟
تو فرمایا۔ نہیں۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! پھر ایک تہائی کی وصیت کر جاؤں؟
فرمایا۔ ہاں ایک تہائی کی وصیت کر جاؤ اور ایک تہائی بہت ہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا دست مبارک میری پیشانی پر رکھا اور منہ پر اور پیٹ پر پھیرا اور دعا فرمائی ‘‘اے خدا! سعد کو شفا عطا فرما اور اس کی ہجرت کو مکمل فرما دے۔ اس کے بعد سے آج تک جب کبھی خیال آتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کی ٹھنڈک اپنے جگر پر محسوس کرتا ہوں۔
ہادئ برحق، معلم انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم نے حقوق العباد کی اہمیت کو ایک مکالمہ کے ذریعے یوں فرمایا ہے:
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ ابن آدم! میں بیمار ہوں تو تو نے میری عیادت نہیں کی۔ بندہ عرض کرے گا کہ اے رب العزت! میں تیری عیادت کیوں کر کرتا، تو رب العالمین ہے۔ اللہ فرمائے گا، کیا تو نہیں جانتا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا لیکن تو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے مجھے کھانے کو نہیں دیا۔ بندہ عرض کرے گا کہ پروردگار عالم! میں تجھے کھانا کیونکر دیتا، تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ فرمائے گا، کیا تو واقف نہیں تھا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے اسے کھانے کو نہیں دیا۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ تو اسے اگر کھانا دیتا تو اسے میرے پاس ہی پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہیں دیا۔ بندہ کہے گا کہ پروردگار! میں تجھے کس طرح پانی پلاتا۔ تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو واقف نہیں تھا کہ میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تو تو نے نہیں دیا۔ سن لے کہ اگر اسے پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔
حقوق العباد میں ہونے والی کوئی کوتاہی تو معاف ہو سکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہیں لیکن بندوں کو تکلیف دے کر اور ان کے حقوق غصب کر کے ہم نجات کے مستحق نہیں ٹھہرتے۔ چنانچہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حاضرین سے مخاطب ہو کر سوال کیا۔
’’تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟‘‘
حاضرین نے جواب دیا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس مال و اسباب نہ ہوں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ’’میری امت میں قیامت کے دن وہ مفلس ہو گا جو نماز، روزہ، زکوٰۃ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی، دوسرے پر بدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال لیا ہو گا، خون کیا ہو گا، مارا ہو گا۔ چنانچہ اس کی تمام نیکیاں ان کو مل جائیں گی جن کے ساتھ اس نے یہ کام کئے ہونگے۔ چنانچہ اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو جائیں گی تو پھر لوگوں کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی جن کے ساتھ اس نے ظلم کیا ہو گا اور وہ جہنم سپرد کر دیا جائے گا۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 210 تا 213
یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔