جب ایک ہی جیسی اطلاعات سب کو ملتی ہیں تو مقدرات اور نظریات میں تضاد کیوں ہوتا ہے؟
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=265
سوال: انسان کی زندگی اطلاعات پر قائم ہے۔ اطلاعات تقاضوں کو جنم دیتی ہے اور تقاضوں کی تکمیل سے زندگی آگے بڑھتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک ہی جیسی اطلاعات سب کو ملتی ہیں تو مقدرات اور نظریات میں تضاد کیوں ہوتا ہے اور انسان ایک طرز پر زندگی کیوں نہیں گزارتے؟
جواب: جس روشنی کے ذریعے ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں اس روشنی کی دو سطحیں ہیں۔ ایک سطح کے حواس میں ثقل اور اُبعاد دونوں شامل ہیں لیکن دوسری سطح میں اُبعاد ہیں۔ ابعاد کی سطح اس روشنی کی گہرائی میں واقع ہے۔ روشنی ہمیں جو اوپری سطح کی اطلاع دیتی ہے حواس انہیں براہ راست دیکھتے اور سنتے ہیں لیکن جو اطلاعات ہمیں نچلی سطح سے پہنچتی ہیں ان کی وصولی کے راستے میں کوئی مزاحمت ضرور ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حواس ان اطلاعات کی پوری گرفت نہیں کرتے ۔ دراصل جو اطلاعات ہمیں اوپری سطح سے موصول ہوتی ہیں یہی اطلاعات نچلی سطح سے وصول ہونے والی اطلاعات کے راستے میں مزاحمت بن جاتی ہیں گویا کہ ایک طرح کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ دیوار اتنی سخت ہوتی ہے کہ ہمارے حواس کوشش کے باوجود اسے پار نہیں کر سکتے۔ اوپری سطح کی اطلاعات دو قسم کی ہیں۔
۱۔ وہ اطلاعات جو اغراض پر مبنی ہوں، ان کے ساتھ ہمارا رویہ جانب دارانہ ہوتا ہے۔
۲۔ وہ اطلاعات جو انفرادی مفاد سے وابستہ نہیں ہوتیں۔ ان کے حق میں ہمارا رویہ غیر جانب دارانہ ہوتا ہے۔ اطلاعات کی ان دونوں طرزوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ انسان کے پاس ادراک کے دو زاویے ہیں۔ ایک وہ زاویہ جو انفرادیت تک محدود ہے۔ دوسرا وہ زاویہ جو انفرادیت کی حدود سے باہر ہے لیکن جب ہم انفرادیت کے اندر دیکھتے ہیں تو کائنات شریک نہیں ہوتی لیکن جب ہم انفرادیت سے باہر دیکھتے ہیں تو کائنات شریک ہوتی ہے۔ جس زاویہ میں کائنات شریک ہے اس کے اندر ہم کائنات کی تمام اشیاء کے ساتھ اپنا ادراک کرتے ہیں۔ ادراک کا یہ عمل بار بار ہوتا ہے۔ اسی کو ہم تجرباتی دنیا کہتے ہیں۔ ایک طرف کائنات کو اپنی انفرادی دنیا میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ دوسری طرف اپنی انفرادیت کائنات میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ یہ ایک طرف انفرادیت کی ترجمانی کرتے ہیں اور دوسری طرف کائنات کی جب یہ دونوں ترجمانیاں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو انفرادیت کی ترجمانی کو غلط ثابت کرنے کے لئے تاویل کا سہارا لیتے ہیں ۔ بعض اوقات تاویل کے حامی اپنے مریضوں سے دست و گریباں ہوجاتے ہیں۔ یہیں سے نظریات کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جب کسی ایسے شخص کی ضرورت پڑتی ہے جو اطلاعات کے روحانی علم سے واقع ہو۔ ذاتی اغراض سے آزاد یہ شخص روحانی انسان ہے جو اپنے شاگردوں کو ذاتی اغراض کے جال سے نکال کر حقیقت سے متعارف کرا دیتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 27 تا 28
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔