جِبِلّی اور فِطری تقاضے
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9024
انسان دو تقاضوں سے مرکّب اور محرّک ہے۔ ایک تقاضہ جِبلّی ہے اوردو سرا فطری۔
جِبلّی تقاضے پر ہم با اِختیار ہیں… اور فطری تقاضے پر ہمیں کسی حد تک تو اِختیار ہےمگر اس اِرادے کو کلیتاً ردّ کرنے پر اِختیار نہیں رکھتے۔
یہ ایک نظام ہے جو جِبلّت اور فطرت پر قائم ہے۔ جِبلّت میں ہر نَوع اور ہر نَوع کاہرفرد ایک دوسرے سے محسوساتی رشتہ رکھتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جس طرح ایک ماں اپنے بچے سے پیار کرتی ہے اور اپنے بچے کی تربیت کرکے اسے پروان چڑھا تی ہے۔ اسی طرح ایک بلّی بھی اپنے بچے سے محبّت کرتی ہے، اپنے بچے کی تربیت کرتی ہے اور گرم و سرد سے اپنے بچے کی حفاظت کرتی ہے۔ مرغی جو زمین پر چلنے والا ایک پرندہ ہے وہ بیک وقت اپنے کئی کئی بچوں کو اپنے ساتھ رکھتی ہے اور ہر طرح سے ان کی حفاظت اور تربیت کرتی ہے۔ ماں کوئی بھی ہو، وہ مرغی ہو، کبوتر ہو، شیرنی ہو، بکری ہو، مامتا کا جذبہ تمام نَوعوں میں مشترک ہے۔
جِبلّت میں کوئی بھی فرد اپنے اِرادے اور اِختیار سے تبدیلی کر سکتا ہے لیکن فطرت میں کسی نَوع کا کوئی فرد تبدیلی نہیں کر سکتا۔
پیدا ہونا ایک فطری عمَل ہے۔ پیدائش کے بعد بھوک پیاس کا تقاضہ بھی ایک فطری عمَل ہے۔ اس طرح کوئی آدمی، کوئی فرد خواہ زمین کے کسی بھی خطے پر مَوجود ہو، اس بات پر اِختیار نہیں رکھتا کہ وہ ساری زندگی کچھ نہ کھا ئے، ساری زندگی سوتا رہے یا جاگتا رہے۔ ہر آدمی یا ہر نَوع کا ہر فرد جس طرح کھانا کھانے اور پانی پینے پر مجبور ہے اسی سونے اور جاگنے پر بھی مجبور ہے۔ اس تَوجیہ کے پیش ونظریہ بات منکشف ہوتی ہے کہ افراد کائنات میں ہر فرد جِبلّت اور فطرت کے اعتبار سے آپس میں ایک ذہنی اِرتباط رکھتا ہے۔ اور ایک مشترک رشتے میں منسلک ہے۔ جب ہم فطرت اور جِبلّت کا گہرائی میں مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایک نیا شعور حاصِل ہوتا ہے۔ یہ شعور ا نسان اورجنّات کے علاوہ کسی دوسری نَوع کو حاصِل نہیں ہے۔ جب انسان کے اندر سوچ وتفکر کا یہ شعور متحرّک ہو جاتا ہے تو اس کی نظر، اس کی فہم، اس کا اِدراک اور اس کی بصیرت اسے لازماً اس طرف متوجّہ کرتی ہے با اِختیار انسان مجبورِ محض بھی ہے، اور یہ مجبور ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری تمام زندگی کا کنڑول کسی ایسی ہستی کے ہاتھ میں ہے جس کا اِختیار کائنات کے اوپر محیط ہے۔ مذاہب اس ہستی کے مختلف نام رکھتے ہیں۔
اسلام اس ہستی کو اللہ کے نام سے متعارف کرواتا ہے۔ عیسائیت اس عظیم اور دَبدبے والی ہستی کو گاڈ (God) کا نام دیتی ہے۔ ہندومت اس بزرگ و بَرتَر ہستی کو بھگوان کہتا ہے۔ کوئی یزدان اور کوئی اِیلیا کہہ کر پکارتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ ہر مذہب اس عظیم ہستی سے متعارف کرانے کا کوئی نہ کوئی اُسلوب ضرور رکھتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 48 تا 49
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔