جامعہ مسجد عظیمیہؔ کے افتتاح سے خطاب
مکمل کتاب : خطباتِ لاہور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=16257
مورخہ ۲ مئی ۱۹۹۳ء کو جامعہ عظیمیہؔ کاہنہ نَو لاہور میں جامعہ مسجد عظیمیہ ؔ کا افتتاح بدستِ مرشدِ کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمیؔ صاحب کے ہوا۔ بوقتِ افتتاح میاں مشتاق احمد عظیمیؔ صاحب نے جامعہ مسجد عظیمیہ کی جگہ اور اس کے نقشے پر مرشدِ کریم کو بریفنگ دی۔
سلسلۂِ عظیمیہ کے اراکین کی ایک کثیر تعداد اس پرو گرام میں شامل تھی۔ مرشد ِ کریم نے افتتاح کرنے کے بعد اجتماعی دعا کرائی اور پھر ایک چھوٹا سا بصیرت اَفروز خطاب فرمایا ۔ خطاب کے بعد میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب نے مراقبہ ہال کی ٹیم اور معزز مہمانانِ گرامی اور دوسرے شہروں سے آئے ہوئے مَندو بِین کا شکریہ ادا کیا۔ پروگرام کے آخر میں مہمانوں کی تواضع کا اہتمام کیا گیا تھا۔
مرشدِ کریم الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
اولیاء اللہ کی گفتگو اَسرار و رُموز اور علم و عرفان سے پُر ہوتی ہے اور ان کی زبان سے نکلا ہوا کوئی لفظ معرفت و حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اُن کے مَلفوظات اور وارِدات رُوحانیت کے راستے پر چلنے والے سالکین کیلئے مشعلِ راہ ہوتے ہیں۔ ان کی گفتگو اور ان کے الفاظ پر ذہنی مرکزیت کے ساتھ تفکر کیا جائے تو کائنات کی ایسی مخفی حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں جن کا انکشاف اور مشاہدہ انسان کو اُس اَمانت سے رُوشَناس کردیتا ہے جس کو سَماوات، اَرض و جِبال نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ ہم اس امانت کے متحّمل نہیں ہوسکتے۔ اگر ہم نے یہ امانت اپنے کندھوں پر اٹھالی تو ہم ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ۔
امانت کا تذکرہ آتا ہے تو انسان کی ایک مُنفرد حیثیت قائم ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ کریم نے بتایا ہے کہ میں کون ہوں اور اس کائنات کی تخلیق میں میری صنّاعی کس طرح عمل کر رہی ہے اور کائنات کا قیام کن ضابطوں، قاعدوں، فارمولوں اور مُعیّن مِقداروں پر قائم ہے۔ یہ علم کی وہ طرز ہے جو یقین بن کر مشاہدہ بن جاتی ہے ۔ اللہ کریم نے قرآن پاک میں سورۃ بقرہ کی پہلی آیتوں میں فرمایا ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کیلئے ہدایت ہے جو متّقی ہیں اور متّقی وہ لوگ ہیں جو غیب کا یقین رکھتے ہیں۔ غیب کا یقین رکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ مشاہداتی نظر کے حامل ہوں ان کے اَندر وہ نظر کام کرتی ہو جو غیب بین ہے۔ جب تک انسان کے اَندر مشاہداتی نظر کام نہیں کرے گی اس کے لئے کائنات تسخیر نہیں ہوگی۔
مسخر ہونے سے مراد یہ ہے کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ زمین ایک قاعدے ضابطے کے تحت رزق فراہم کر رہی ہے۔ ہم زمین پر مکان بناتے ہیں تو زمین مکان بنانے میں حارج نہیں ہوتی۔ زمین اتنی سنگلاخ اور سخت جان نہیں بن جاتی کہ ہم اس کے اوپر چلیں تو گرنے لگیں ۔ اتنی نرم نہیں بن جاتی کہ ہم زمین کے اوپر چلیں تو ہمارے پَیر دھنس جائیں ۔ سورج اور چاند ہماری خدمت گزاری میں مصروف ہیں ایک قاعدے اور ضابطے میں اپنی ڈیوٹی کو انجام دے رہے ہیں جو ان کے اوپر فرض کر دی گئی ہے اور اس عمل سے ہمیں اختیاری یا غیر اختیاری فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ایک تسخیر یہ ہے کہ آپ اپنے اختیار کے تحت زمین سے، سمندر سے، دریاؤں سے، پہاڑوں سے، چاند سے سورج سے کام لے سکیں۔ تسخیر یہ بھی ہے کہ چاند کی چاندنی سے پھلوں میں مٹھاس پیدا ہو۔ اور اعلیٰ تسخیر یہ ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام انگلی سے اشارہ کردیں تو چاند دو ٹکڑے ہوجائے ۔ حضرت عمر فاروق ؒ دریائے نیل کو پیغام بھیج دیں…. ‘‘اگر تُو اللہ کے حکم سے چل رہا ہے تو سر کشی سے باز آجا ورنہ عمرؓ کا کوڑا تیرے لئے کافی ہے’’۔ ایک صاحب نے خود عمر ؓ سے شکایت کی…. یا امیر المومنینؓ! میں زمین پر محنت کرتا ہوں، دانہ ڈالتا ہوں اور جو کچھ زمین کی ضروریات ہیں انہیں پورا کرتا ہوں لیکن بیج سوکھ جاتا ہے۔ بہت پریشان ہوں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا جب میرا اس طرف سے گزر ہو تب بتانا ۔ حضرت عمر ؓ جب اس طرف سے گزرے تو اُن صاحب نے زمین کی نشاندہی کی۔ حضرت عمرؓ تشریف لے گئے اور زمین پر کوڑا مار کر فرمایا کہ تو اللہ کے بندے کی محنت کو ضائع کرتی ہے جبکہ وہ تیری ساری ضروریات پوری کرتا ہے اور اس کے بعد زمین لہلہاتے کھیت میں تبدیل ہوگئی۔’’
زندگی کے دو رخ ہیں جس میں سے ایک رخ بیداری ہے۔ جب انسان بیدار ہوتا ہے تو لوحِ محفوظ سے آنے والی لہروں میں جو مِقداروں کی صورت میں ہیں اور لطیف ہونے کی بنا پر نیند لاتی ہیں، اُن میں ہم اپنے علم کے مطابق بھاری پن اور کثافت شامل کر لیتے ہیں۔ ان میں کثافت ہوتی نہیں ہے۔ ہم اُن کے اَندر کثافت محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے اس طرح کے محسوسات سے اُن مِقداروں میں بوجل پَن پیدا ہوجاتا ہے…. اس بو جھل پَن کا نام شعور ہے۔ اِس کا مطلب ہے جب احساس کے اَندر بوجھل پَن پیدا ہوجائے تو ساری کی ساری زندگی بوجھل ہوجاتی ہے۔ پہلی بوجھل زندگی شعور ہے۔ یہی بوجھل زندگی کششِ ثَقل ہے۔ اور جن کیفیات کے اَندر لطافت ہو…. چانکہ کیفیات سے مراد مِقداریں ہیں تو گویاجب مِقداروں میں لطافت ہو تو مِقداروں (کیفیات) میں کثافت اور بوجھل پن نہیں ہوگا۔ اور جب کثافت اوربوجھل پن کا احساس نہ ہو تو انسان لطیف ہوجاتا ہے ہلکا پھلکا ہوتا ہے اور جہاں شعور کے اَندر ہلکا پن ہو… لطافت ہو…. تو مِقداروں (کیفیات) میں کثافت اور بوجھل پن نہیں ہوگا۔ اور جب کثافت اور بوجھل پن کا احساس نہ ہو تو انسان لطیف ہوجاتا ہے ہلکا پھلکا ہوتا ہے اور جہاں شعور کے اَندر ہلکا پن لالفت اور آزادی ہو وہ سب کا سب رات کے حواس سے متعلق ہونے کے سبب رات ہوئے اور اس کے بر عکس جب شعور میں بوجھل پن اور کثافت چھا جاتی ہے تو سب کا سب دن ہُوا۔
یا یوں کہہ لیں کہہ مِقداروں کے دو رخ مرتّب فرمادیئے ہیں:
ایک رخ لطیف…. اور
دوسرا کثیف
کثیف رخ سارا کا سارا دن ہے…. اور
لطیف رخ ساراکا سارا رات ہے۔
پہلے رُخ (دن کے حواس) میں صحت کے مقابلے میں بیماری، آزادی کے بجائے پابندی، سکون کے بجائے پریشانی، وسوسہ، بدحالی، لالچ، حسد اور نفرت ہے۔
اب آواز کو ہی لے لیں۔ آواز کیا ہے؟ مختلف لہروں کا، مِقداروں کا کمبی نیشن(Combination)ہے۔ آپ کسی کو آواز دیں آواز میں مٹھاس ہو، حلاوت ہو، محبت ہو تو وہ آواز آپ کو خود بھی اچھی لگے گی اور جس کو آپ نے آواز دی اس کو بھی اچھی لگے گی۔ لیکن اب اگر اسی آواز میں نفرت ہو تو اس بات کا ہمیں علم ہے کہ وہ آواز خود آپ کو بھی بری لگے گی سننے والوں کو بھی بری لگے گی۔ یعنی نفرت کا مطلب ہُوا کہ آواز میں نفرت کے جذبات نے بوجھل پن اور کثافت پیدا کردی ۔ یعنی آواز نفرت کی مِقداروں سے بوجھل اور کثیف ہوگئی اور جب آپ نے محبت اور اخلاص سے بات کی تو اس کا مطلب ہُوا کہ آپ نے آواز کی لطافت میں اضافہ کردیا ۔ آواز تو آواز ہے۔ آواز ایک مِقدار ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے اس میں کتنی کثافت شامل کی یا کتنی لطافت ڈال دی۔ چونکہ اللہ تعالیٰ لطافت ہی لطافت ہیں اور ان کا کثافت سے کوئی تعلق نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں صاف کہہ دیا ہے۔
‘‘جو لوگ غصے سے بچتے ہیں غصے کی کیفیات میں داخل نہیں ہوتے اور اگر اس کیفیت میں داخل ہوتے ہیں تو اس سے فوراً نکل آتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے بات کرتے ہیں لوگوں کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے۔’’ (سورۃ آلِ عمران – 134)
آواز کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
آواز تو گدھے کی بھی ہے… (سورۃ لقمان – 19)
گدھے کی آواز میں ایک خاص قسم کی کراہت محسوس ہوتی ہے دماغ کی اَندر خاص قسم کی خراشیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس ساری بات کا مطلب یہ ہوا کہ آواز ہو، کھانا پینا ہو، سوچنا ہو یا احساس کسی بھی درجے میں ہو اس کی حیثیت مِقداروں جیسی ہے۔ مِقداروں میں پورے کا پورا کائناتی سسٹم، کائنات کے تمام افراد یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔
چناچہ قانون یہ بنا کہ زندگی کا ہر تقاضا معیّن مِقداروں سے مرکب ہے اور یہ مِقداریں ہی تقاضے تخلیق کرتی ہیں۔ زندگی کا کوئی تقاضہ بھی اِن فارمولوں اور اِن مِقداروں کے بغیر قائم نہیں ہے۔ اللہ کریم نے چونکہ ہماری اور کائنات کی تخلیق فارمولوں سے کی ہے، اسلئے تسخیرِ کائنات کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں تخلیق کے وہ فارمولے معلوم ہوں جن کو اوپر یہ تخلیق قائم اور متحّرک ہے…. با حواس…. باشعور ہے۔
اللہ کریم کا قانون جاری و ساری ہے۔ قرآن پاک میں اللہ کریم نے فرمایا کہ یہ کتاب ان لوگوں کے اوپرہدایت کے دروازے کھولتی ہے جو تفکر کرتے ہیں…. تحقیق و تلاش کرتے ہیں… ریسرچ کرتے ہیں…. گہرائی میں مشاہدہ کرتے ہیں ۔ اور جو تلاش کرتا ہے وہ پالیتا ہے اور جو کفران کرتا ہے محروم رہ جاتا ہے۔
تخلیقی فارمولوں کے یہی علوم انبیاء علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کا ورثہ ہیں جس سے انہوں نے نوعِ انسانی کو متعارف کرایا۔ حتیٰ کہ حضور ﷺ پر یہ علوم مکمل ہوگئے ۔ اِن علوم سے متعارف ہونے کیلئے صحابۂِ کرام ؓ کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔صحابۂِ کرام رِضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت ؓ کو حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے جو ذہنی شغَف تھا اور حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی نشست و بَر خاست کو وہ جس اَنداز سے دیکھتے تھے…. اُس پر عمل کرتے تھے۔ صحابۂِ کرام ؓ اور اہل بیت دراصل حضور نبی کریم ﷺ کی اَنوار و تجلّیات کے امین تھے…. جو اَنوار قریب رہنے والوں کو منتقل ہوتے تھے ۔ اُن کو حضور ﷺ کی ذات سے عشق اتنا زیادہ تھا کہ ان کے ذہن از خود حضور ﷺ کی طرف لگے رہتے تھے۔ وہ حضور ﷺ کے اٹھنے بیٹھنے پر، اخلاق پر، اَدب کے معا ر پر، جھوٹ اور غصہ پر اور معافی وغیرہ پر تفکر کرتے تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ حضور ؐ ناراض نہیں ہوتے۔ اس لئے وہ بھی ان باتوں پر پورا عمل پَیرا ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ یہ چیزیں حضور ؐ کے اَندر نہیں ہیں اس لئے ہمارے اَندر بھی نہیں ہونی چاہئیں۔ وہ حضور ؐ کی پوری پوری نقالی کرنے کی کوشش کرتے تھے جیسے بچے والدین کی نقل کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا بھی ہوگا اور آج کل یہ مثالیں بھی اکثر دیکھنے میں آتی ہیں جیسے نماز پڑھتے وقت بچے آکر مُصلّے پر بیٹھ جاتے ہیں…. بچے ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اپنے والدین کے معمول ہوتے ہیں اور یہ قانون ہے کہ….‘‘معمول وہی کچھ کرتا ہے جو عامل کرتا ہے’’۔
اِسی قانون کے تحت صحابۂِ کرام ؓ بھی حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے معمول بن کر آپ ؐ کی نقالی کرتے تھے۔ صحابۂِ کرام ؓ میں سے جس کو جتنی قربت تھی اُسی مناسبت سے اُس کو حضور ؐ کے انور منتقل ہوتے تھے اور اُسی قدر طرزِ فکر حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی طرزِ فکر سے ہم آہنگ ہوتی تھی۔ اِسی وجہ سے صحابۂِ کرام ؓ کو تصوّف کی مشقوں کی ضرورت نہ پڑی ۔ اُن کا تزکیۂ ِنفس صرف حضور نبی کریم ﷺ کو تکتے رہنے سے ہی ہو جاتا تھا۔
حضور قلندر بابا اولیاء ؒ فرمایا کرتے تھے کہ
‘‘بندہ اگر مرشد کو صرف تکتا ہی رہے تو یہ بھی تصورِ شیخ میں آجاتا ہے کیونکہ اس کا ذہن اپنے مرشد کی طرف لگا رہتا ہے۔’’
جس مناسبت سے حضورؐ کی طرزِ فکر سے دُوری ہوئی اُسی نسبت سے مرتبۂِ احسان کے اَنوار سے بھی دُوری ہوگئی۔ چناچہ لوگ اسی قدر تصوّف یا رُوحانیت سے بھی دور ہوتے چلے گئے کیونکہ تصوّف یا رُوحانیت مرتبۂ احسان کے ان اَنوار کے حصول کا نام ہے جن اَنوار سے مذہب کی اَندرونی کیفیات و وارِدات کا حصول ہوتا ہے۔
صحابۂِ کرام ؓ کے بعد تابعین اپھر تبَع تابعین کا دَور آیا۔ تبَع تابعین کے دَور کے بعد، مذہب کی اَندرونی وارِدات و کیفیات کے اصل حصول کیلئے خانقاہوں کی ضرورت پڑی۔ پھر بادشاہت آگئی۔ بادشاہت کی، اَندرونی وارِدات و کیفیات رکھنے والوں نے مخالفت کی جس کے نتیجے میں بادشاہت، اَندرونی وارِدات و کیفیات والوں کے خلاف ہوگئی، سلاطین کے زمانے میں بہت زیادہ سازشیں ہوئیں، لڑائیاں لڑی گئیں شہادتِ امام حسین ؓ کا واقعہ پیش آیا۔ اہل بَیت کو چُن چُن کر مار دیا گیا ۔ جب حضرت حسن بصریؒ نے احتجاج کیا تو کہا گیا کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے کِیا گیا ہے۔ فقراء کہتے تھے کہ اَندرونی وارِدات و کیفیات کو قائم کر کے مذہب کو رُوحانیت کے ساتھ جوڑ دیا جائے جبکہ سلاطین نے اِن اَندرونی وارِدات و کیفیات کو ختم کِیا…. اِن کو ختم کرنے کیلئے لوگ خریدے گئے…. لیکن جو فقیر ہو گیا وہ بِکا نہیں۔ جس کی اَندرونی وارِدات و کیفیات قائم ہوگئیں وہ بِکا نہیں۔ فقیر بکتا نہیں ہے اور جب وہ بکتا نہیں ہے تو وہ حق بات کہے گاور جب حق بات کہے گا تو سلاطین کو تو نقصان ہوگا۔ اس لئے ان کو ختم کرنے کیلئے بہت کچھ کیا گیا، پھر ایک سازش کے تحت یہ بات داخل کی گئی کہ یہ لوگ دنیا بیزار ہیں جبکہ صرف ان کی دنیاوی دلچسپیاں کم ہوجاتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔
حضرت شیخ عبدا لقادر جیلانی ؒ نے سلاسل کا پروگرام شروع کیا۔ رُوحانیت کیلئے اسباق تجویز کئے گئے۔ یہ جو نسبت ِ اُوَیسیہ ہے یہ بھی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے قائم کی۔ جس کے تحت علوم کو انبیاء کرام ؑ، صحابہ کرامؓ اور اولیاء اللہ کی اَرواح سے رُوح میں براہ راست منتقل کیا جاتا ہے۔ رُوح سے رُوح کے اَندر علوم ی منتقلی اِسی نسبت کے تحت ہوتی ہے۔ ایک رُوح استاد یا مرشد ہوتی ہے اور ایک رُوح شاگرد یا مرید ۔ نام سے کچھ نہیں ہوتا اصل تو مفہوم ہوتا ہے۔
اگر مذاہب کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ عیسائیت اس لئے ختم ہوگی کہ اس کے پیرو کاروں نے اس کے اَندر سے رُوحانی وارِدات و کیفیات کو نکال دیا۔ یہی حال اس وقت مذہبِ اِسلام کا ہوا ہے۔ لوگ نہ تو اس طرف مُتوجّہ ہیں اور بد قسمتی سے اگر کچھ لوگ مُتوجّہ ہو ہی جاتے ہیں تو انہیں بھی ڈرا دھمکا کر، خوفزدہ کر کے دُور کردیا جاتا ہے۔ سلاطین کے دَور میں تو مذہب سے اتنی بیزاری اور دُوری پیدا کردی گئی کہ گانا بجا کر…. جسے آپ لوگ قوالی کہتے ہیں…. سے لوگوں کو اس طرف بلایا جانے لگا۔ کتنی بد بختی اور بے حسی ہے یہ۔
عیسائیت ہو یا اِسلام، جب لوگوں کے یقین کو توڑ کر، ڈر خوف پیدا کردیا گیا تو لوگ اللہ سے بیزار ہوگئے اور مذہب سے دُور ہوگئے ۔ جو بت پرستی ہے اس کی بنیاد بھی ڈر اور خوف ہے۔ جبکہ متّقی کا مطلب ہے با یقین۔
دراصل مذہب ایسا متعیّن راستہ ہے جس راستے پر چل کر آدمی کو اللہ کی قربت حاصل ہوتی ہے اور جب قربت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ اللہ کا دوست بن جاتا ہے اور اللہ کے دوستوں کو خوف و غم نہیں ہوتا ہے اور جس کے اَندر خوف و غم ہے وہ اللہ کے دوست نہیں۔
اب آپ لوگ غور کریں کہ کیا ہمارے اَندر خوف اور غم ہے یا نہیں….؟
آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ آ پ کون ہیں ….! کس کیٹیگری میں آتے ہیں….!
البتہ جو لوگ یقین اور مشاہدہ حاصل کرلیتے ہیں وہ اللہ کے دوست ہوجاتے ہیں۔ جب بادشاہوں نے انہیں قتل کرایا تو وہ آرام سے ہوگئے ۔ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ مرنے کے بعد کی دنیا میں کیا کچھ ہے؟ کس طرح ہے؟ اسی لئے وہ اللہ کے مہمان بن کر آرام سے اس دنیا سے چلے گئے۔
زمانہ میں ہر وقت ارتقاء ہوتا رہتا ہے۔ مَوجودہ سائسیا دَور پچھلے دو سو سالوں سے بہت زیادہ ارتقاء پذیرہے۔ بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے۔ وسائل میں اضافہ ہُوا ہے ۔ جس مناسبت سے وسائل میں اضافہ ہُوا ہے اسی مناسبت سے وسائل کی زیادتی سے انسان کے اَندر سے قوت مُدافعت کم ہوتی چلی گئی ہے۔
زمانے کی ترقی کے مطابق سلسلۂِ عظیمیہؔ کی منظوری حضور پاک ؐ سے حاصل کر لی گئی تاکہ انسان مادّی وسائل میں گم ہو کر اللہ سے دُور نہ ہوجائے اور اسے روک لیا جائے۔ یہی مقصد تمام خانقاہوں کا تھا اسی لئے ہر خانقاہ میں آپ کو مسجد ملے گی جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مذہب اَندرونی وارِدات و کیفیات کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا نام ہے۔ مذہب اللہ کو پہچاننے کا نام ہے۔ جس کی تمام تر صلاحیتیں بھی انسان کے اَندر منتقل کردی گئیں ہیں۔ یہ بات آپ ذہن نشین کر لیں کہ ہمیں صرف روٹی، کپڑے، گھر بنانے، بیوی یا شوہر، اولاد پیدا کرنے یا محنت مزدوری کے لئے نہیں پیدا کیا گیا ہے۔ ہمارا اصل مقصد اللہ کے ساتھ ربط و تعلق قائم کرنا ہے جو اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ اللہ کو پہچان لیں ۔ اور اللہ کی پہچان مذہب اسلام کے ذریعے ہوتی ہے اور مذہب اسلام میں مسجد کو اسی لئے بنیادی حیثیت حاصل ہے کہ….
• یہ ایک ایسا مرکز ہے ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں سے آپ کو اللہ کی پہچان کیلئے اسباق، وسائل اور قواعد و ضوابط حاصل ہوتے ہیں
• تزکیۂ نفس کیلئے مسجد ایک اہم حیثیت رکھتی ہے
• مسجد دراصل ایک مرکزیت، ایک اجتماعی شعور کی نشاندہی کرتی ہے
• حضور ؐ کی زندگی میں مسجد ایک ایسی مرکزی جگہ تھی جو ایوانِ صدر بھی تھی… اور
• فوجی ہیڈ کوارٹر کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی….
• سپریم کورٹ بھی تھی….
• مذہب کی تبلیغ کیلئے بھی استعمال ہوتی تھی…. الغرض
• مسجد ایک اجتماعی شعور… ایک اجتماعی طرزِ نظر ہوتی ہے…. جہاں سے ہر چیز کنٹرول کی جاتی تھی
• اِسی اجتماعی شعور کی ترتیب، نشو نما اور اس سے آگاہی کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے ذریعے مسجد کو تعمیر کرایا… جس میں پانچ وقت نماز با جماعت ادا کی جاتی ہے….
در اصل….
• دن میں پانچ وقت با جماعت نماز ایک ایسا اجتماعی پرو گرام ہے، جس میں محلے کی سطح پر لوگ اکھٹا ہوتے ہیں۔ ایک ساتھ قدم سے قدم ملا کر اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہوتے ہیں اور سر بسجود ہوتے ہیں․․․․․پھر
• جمعہ کی نماز پوری بستی کی سطح کا اجتماعی پروگرام ہے، جامع مسجد میں بستی کے لوگ ہر ہفتے اکھٹا ہوتے ہیں….
• سال میں دو مرتبہ عیدین پر شہر کے کھلے میدان میں نماز کا اجتماع شہر کی سطح پر اجتماعیت کا شعور پیدا کرتا ہے۔
اسلام مسلمانوں سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ انفرادی شعور کی سطح سے بلند ہو کر اجتماعی شعور میں داخل ہوجائیں․․․․․
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے”اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مظبوطی سے پکڑ لو”اس آیت مبارکہ میں یہی حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی مرکزیت نہ توڑو، منتشر اور فرقے فرقے نہ ہوجاؤ بلکہ اجتماعی شعور کے دائرے میں داخل ہو کر متحد ہو جاؤ․․․․․
خدا کی نظر میں روئے زمین کا سب سے زیادہ بہتر حصہ وہ ہے جس پر مسجد تعمیر کی جائے ۔ قیامت کی ہیبت ناک دن میں جب کہیں کوئی سایہ نہیں ہوگا خدا اُس دن اپنے اس بندے کو اپنے عرش کے سائے میں رکھے گا جس نے کوئی مسجد تعمیر کی ہے۔ مسجد کی حفاظت اور خدمت کیےئر اور اس کو آباد رکھئے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“خدا کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد رکھتے ہیں جو خدا پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔”
(سورۃ التّوبۃ – 18)
فرض نمازیں با جماعت مسجد میں ادا کیجئے کیوں کہ مسجد ایک ایسا مرکز ہے جس کے گرد مومن کی پوری زندگی گھومتی ہے ۔ مسجد میں سکون سے بیٹھئے اور دنیا کی باتیں نہ کیجئے۔ مسجد میں اونچی آواز سے بات کرنا، شور مچانا، ہنسی مذاق اڑانا، کاروباری زندگی سے متعلق باتیں کرنا۔ ایسی باتیں کرنا جن میں دنیاوی آلائیںے شامل ہوں…. مسجد کی بے حرمتی ہے ۔ مسجد ایک ایسا مقدس مقام ہے جہاں صرف خدا کی عبادت کی جاتی ہے۔
جس طرح ہر آدمی کا ہر دوسرے آدمی پر حق ہے اسی طرح مسلمانوں پر مسجدوں کا حق ہے اور وہ حق یہ ہے کہ مسجد کا احترام کیا جائے۔ اور یہ کہ وہاں اپنے اللہ کے سامنے بندہ سر بسجود ہو۔ مسجد کا حق یہ ہے کہ آپ اس میں نماز قائم کریں، اللہ کا ذکر کریں تاکہ آپ کو اطمینان قلب نصیب ہو۔ نہایت ادب و احترام اور تر تیل کے ساتھ کلام پاک کی تلاوت کریں۔
خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنے گھروں کی طرح مسجد کی زینت کا بھی خیال رکھیں امکان بھر کوشش کریں کہ مسجد سے ان کا ذہنی تعلق قائم رہے۔ ہوشیار بچوں کو ان کے بڑوں کے ساتھ مسجد میں بھیجیں تاکہ بچوں میں رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق ایک اللہ کی بندگی اور اطاعت کا شوق پیدا ہو ۔
آج یہاں لاہور کے مضافات میں، اس دور دراز جگہ پر آپ لوگوں نے اور خاص کر میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب نے جامعہ عظیمیہ بنا کر ایک اجتماعی شعور کی ابتداء کردی ہے۔ میں میاں صاحب کو اور ان کی ٹیم کو اس پر مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ لوگ یہاں خود بھی آئیں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی لے کر آئیں تاکہ ان کے اَندر بھی خدا شناسی کا جذبہ پیدا ہو ۔ یہاں تقریبات کریں، اجتماعی عبادت کیجئے۔ اللہ نے آپ کو ایک بہترین پلیٹ فارم دے دیا ہے اب یہ آپ پر منحصر ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو خوش رکھے اور اس مسجد کو آباد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 75 تا 83
خطباتِ لاہور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔