تین سو تیرہ بمقابلہ ایک ہزار
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=355
دشمن کو دشمن کے ہتھیار سے ہلاک کرنے کی جنگی حکمتِ عملی کے تحت مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح قبیلہ قریش نے مدینہ کو معاشی محاصرے میں لے رکھا ہے اسی طرح وہ بھی مکہ کے تجارتی قافلوں کو مدینہ کی حدود سے گزرنے کی اجازت نہ دیں۔ اس حکمتِ عملی پر عمل دراۤمد میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ قریش نے اپنے تجارتی قافلوں کی گزرگاہوں پر اۤباد قبائل سے معاہدہ کر رکھا تھا۔ جس کے عوض اہلِ مکہ انہیں ”باج” ادا کرتے تھے۔
حضورعلیہ الصّلوٰۃ والسّلام بدوی قبائل میں تشریف لے گئے اور مکہ والوں کی زیادتیوں اور چیرہ دستیوں سے بدوی قبیلوں کو اۤگاہ کر کے انہیں مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کی دعوت دی۔ قبیلوں نے یہ پیش کش قبول کرلی اور اہلِ مکہ سے حاصل ہونے والی اۤمدنی سے دستبردار ہوگئے۔ حضورعلیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے قبیلہ غفّار، قبیلہ بنو ضمرہ، قبیلہ جہینیہ اور قبیلہ مدلیج کے سرکردہ افراد کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ بہت سارے لوگ مسلمان ہوئے اور کئی قبیلے مسلمانوں کے اتحادی بن گئے۔ ان قبائل کی بستیاں ایسی جگہ پرتھیں جہاں سے قافلے گزرتے تھے۔ حضورعلیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی غیر موجودگی میں ابنِ جبیر کی قیادت میں تیز رفتار اونٹوں پر سوار کچھ سواروں نے مدینہ پر حملہ کردیا۔ گھروں میں اۤگ لگادی۔ مسلمانوں کا مال و اسباب لوٹ کر لے گئے۔ انکوأئری کے بعد پتا چلا کہ یہ قریش کی سازش تھی۔ قریش کی ریشہ دوانیوں کا قلع قمع کرنے کے لئے حضورعلیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے اۤٹھ مسلمانوں کو منتخب کیا اور ان میں سے عبد اﷲ بن حجش کو سربراہ بنایا۔ جب عبد اﷲ نخلہ پہنچے تو رجب کا مہینہ ختم ہونے میں ابھی ایک دن باقی تھا۔ رجب کا مہینہ اہلِ مکہ کے نزدیک حرمت والا مہینہ تھا۔ اسی دن ایک کارواں نے جو کشمش اور کھالیں لے کر طائف سے مکہ جارہا تھا نخلہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ عبد اﷲ بن حجش نے کارواں کو روک لیا۔ اس قافلے میں قریش کے چار افراد شامل تھے۔ ان افراد میں سے ایک مارا گیا۔ دو اسیر ہوگئے اور ایک بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور مسلمانوں نے قافلے کا سارا مال اور مویشی اپنے قبضے میں لے لئے۔ مکہ میں صدائے اعتراض بلند ہوئی اور مدینہ کے بت پرست یہودیوں نے بھی احتجاج کیا اور حضورعلیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے خلاف الزام تراشی کی مہم شروع کردی کہ مسلمانوں نے رجب کے مہینے میں کارواں پر حملہ کرکے دیرینہ قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ عبد اﷲ بن حجش مالِ غنیمت لے کر اۤئے تو مسلمان بھی شبہ میں پڑ گئے۔ سیّدنا حضورعلیہ الصّلوٰۃ والسّلام بھی غمگین و ملول ہوئے۔ اۤپؐ نے حکم دیا کہ سارا سامان ایک جگہ جمع کردیا جائے اور کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے جب تک کوئی فیصلہ نہ ہو۔ اس موقع پر سورۃ البقرہ کی اۤیات نازل ہوئیں۔
ترجمہ:
”اۤپ سے (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) حرمت والے مہینوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ اۤپ کہ دیجئے کہ اس ماہ میں لڑائی کرنا بڑا گناہ ہے مگر اﷲ کی راہ روکنا اور خدا سے کفر کرنا اور مسجد الحرام میں داخلے پر پابندی لگانا اور ان لوگوں کو جو اس کے اہل ہیں وہاں سے نکال دینا اﷲ کے نزدیک اس بھی بڑا گناہ ہے اور فتنہ انگیزی قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔ ”
کچھ عرصے بعد کفّارِ مکہ کا ایک اور قافلہ مدینہ کی حدود سے گزر کر مکہ پہنچنے والا تھا۔ قافلہ ابوسفیان کی قیادت میں دوہزار اونٹوں پر پچاس ہزار مالیت کا سامان لے کر جارہا تھا۔ مکہ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مسلمان قافلہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ کفّارِ مکہ نے اس بات کو بنیاد بناکر نو سو پچاس جنگجو مرد، سات سو اونٹ اور ایک سو گھوڑوں پر مشتمل فوج مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دی۔ مسلمانوں کو جب اس کی اطلاع ملی تو تین سو تیرہ افراد ستّر اونٹوں اور دو گھوڑوں پر مشتمل جماعت مقابلہ کے لئے تیار ہوگئی۔
ہجرت کے دوسرے سال سترہ رمضان کو بدر کے مقام پر دونوں افواج کا اۤمنا سامنا ہوا۔ اس جنگ میں مسلمان تعداد کے لحاظ سے قریش کے مقابلے میں صرف ایک تہائی تھے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور فتح و نصرت عطا کی۔ قریش کی فوج کا سپہ سالار ابوجہل اس جنگ میں ہلاک ہوا۔ جنگِ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کا تذکرہ قراۤن نے ان الفاظ میں کیا ہے۔
ترجمہ:
”سو تم نے ان کو نہیں مارا لیکن اﷲ نے مارا اور تو نے نہیں پھینکی مٹھی خاک جس وقت پھینکی تھی لیکن اﷲ نے پھینکی، اور کیا چاہتا تھا ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان، تحقیق اﷲ ہے سنتا جانتا۔ ” (الانفال۔۱۷ )
جنگِ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی خبر مکہ پہنچی تو اہلِ مکہ نے ایک اور جنگ کے ذریعے مسلمانوں سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔
حضورعلیہ الصّلوٰۃ والسّلام اور دیگر مسلمانوں سے جنگ و جدل کرنے والے گروہ کا سربراہ ابوسفیان تھا۔ جنگِ بدر میں اس کا ایک بیٹا، سسر اور داماد مارے گئے تھے۔ جبکہ دوسرا بیٹا مسلمانوں کے پاس قید تھا۔ ابوسفیان نے قسم کھائی کہ مسلمانوں سے انتقام لئے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گا اور نہ ہی اپنی بیوی کے ساتھ مباشرت کرے گا۔ ابوسفیان کی بیوی نے بھی قسم کھائی کہ اگر اس کے بیٹے، باپ اور بھائی کا قاتل اس کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس کا کلیجہ چبالے گی۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر اس کے بیٹے، باپ اور بھائی کے قاتل کئی لوگ ہوئے تو وہ ان سب کے کان، ناک اور زبان کاٹ کر ان کا ہار بنائے گی اور جس دن اسلام کو شکست ہوگی تو وہ یہ ہار گلے میں ڈال کر میدانِ جنگ میں ناچے گی۔
جنگِ بدر کے بعد حضورؐ کی بڑی صاحبزادی دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ابھی حضرت رقیّہؓ کو فوت ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اور صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ ان کا پہلا نواسہ اور ان کی دوسری بیٹی حضرت زینبؓ بھی اﷲ کو پیاری ہوگئیں۔
حضورعلیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے اہلِ مدینہ کے لئے ایک بنیادی اۤئین مرتب کیا تھا۔ جس کی ایک شق یہ تھی کہ مدینہ کے یہودی مسلمانوں کے خلاف اہلِ مکہ سے گٹھ جوڑ نہیں کریں گے۔ لیکن یہودیوں نے اس اۤئین کی خلاف ورزی کی اور ان کے کچھ شاعر مدینہ سے نکل کر مکہ پہنچ گئے تاکہ اہلِ مکہ کے جذبات کو مشتعل کریں اور انہیں مسلمانوں سے لڑنے پر اکسائیں۔ مدینہ کے یہودی شاعر ایسے وقت پر مکہ پہنچے جب وہاں مسلمانوں کے خلاف غضب و انتقام کی اۤگ بھڑک رہی تھی۔ قریش کے سرداروں نے یہ اعلان کروادیا تھا کہ مکہ کا کوئی شہری جنگِ بدر کے مرنے والوں پر اۤنسو بہائے گا تو خواہ وہ مرد ہو یا عورت اسے شہر اور قبیلے سے نکال دیا جائے گا۔ جنگِ بدر میں ابوجہل کی موت کے بعد مکہ میں تین افراد پر مشتمل ایک تنظیم قائم ہوئی۔ جس میں ایک ابی لہب، دوسرا ابوسفیان اور تیسرا صفوان بن امیّہ تھا۔ ان تینوں نے یہ عہد کیا کہ جب تک اسلام ختم نہیں ہوجائے گا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 114 تا 119
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔