تَرکِ دُنیا
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19890
صوفی روحانی صلاحیت اور باطنی استعداد کو متحرک کرنے کے لئے جب خانقاہ میں داخل ہوتا ہے۔چند سال تک خانقاہ کے ہاسٹل میں رہتا ہے۔تو اسے مخالفین راہب اور تارک الدنیا کہتے ہیں۔اور جب کوئی طالبعلم دنیاوی علم حاصل کرنے کے لئے کارپینٹر کا کام سیکھنے کے لئے ،ملازم حکمران کی اطاعت کے لئے ،مزدور مزدوری کے لئے ، اجیر فیکٹری میں کام کرنے کیلئے جب سالہاسال گھر اوروطن سے دور رہتا ہے ۔تو کوئی نہیں کہتا یہ تارک الدنیا ہے ۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ راہب ہے۔
سالک خانقاہ میں رہ کر اپنی باطنی کیفیات کا مشاہدہ کرتا ہے ۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا ہے۔اﷲ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔بلا صلہ و ستائش اﷲ کی مخلو ق کی خدمت کرنے کے لئے خود کو اہل بناتاہے۔اﷲ کا دوست بن کر خوف اور غم سے نجا ت حاصل کر لیتا ہے۔تو اسے راہب اور دنیا بیزار کے القاب سے نوازاجاتا ہے ۔
تصوّف مذہب کی روح ہے اور اسلام کے اصولوں پر اس کی تدوین ہوئی ہے۔اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔دوسرے علوم کی طرح روحانی طالبِ علم شب و روز محنت کرکے ، وقت لگا کر یہ علم سیکھتا ہے اور جب علم کی تکمیل ہوجاتی ہے تو گوشہ نشینی یا ہوسٹل کی رہائش ترک کردیتا ہے اور دنیا کے سارے کام پورے کرتا ہے۔ سالکین کے اوپر یہ الزام ہے کہ وہ تارک الدنیا ہوتے ہیں۔کیا ہم لاہور میں مقیم حضرت داتا گنج بخشؒ اور ملتا ن میں موجود حضرت بہاؤ الدین زکریا ؒ کو تارک الدنیا کہہ سکتے ہیں ۔
داتا صاحب ؒ کا مزار مرجع خلائق ہے جہاں ہزاروں انسان روزانہ کھانا کھاتے ہیں۔کیا ہم اس دعوتِ عام کو ترکِ دنیا کا نام دے سکتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 23 تا 24
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔