توکّل اور بھروسہ
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9217
عام حالات میں جب إستغناءکا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے اوپر کتنا توکل اور بھروسہ ہے۔ توکل اور بھروسہ کم و بیش ہر آدمی کی زندگی میں داخل ہے لیکن جب ہم توکل اور بھروسے کی تعریف کرتے ہیں تو ہمیں بجز اس کے کہ کچھ نظر نہیں آتا کہ ہماری دوسری عبادات کی طرح توکل اور بھروسہ بھی لفظوں کا خوشنما جال ہے۔ توکل اور بھروسے سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام معاملات اللہ کے سپرد کردے! لیکن جب ہم فی العمل زندگی کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ بات محض لفظی اور غیر یقینی نظر آتی ہے، اوریہ ایک ایسی بات ہے کہ ہر آدمی کی زندگی میں اس کا عمَل دخل ہے۔ ہر آدمی کچھ اس طرح سوچتا ہے کہ ادارے کا مالک یا سیٹھ اگر مجھ سے ناراض ہوگیا تو ملازمت سے برخاست کر دیا جاؤں گا، یا میری ترقی نہیں ہو گی یا ترقی تنزلی میں تبدیل ہو جائے گی۔ یہ بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ جب کسی کام کا نتیجہ اچھا مُرتّب ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ نتیجہ ہماری عقل، ہماری ہمّت اور ہماری فہم و فراست سے مُرتّب ہُوا ہے۔ اس قسم کی بےشمار مثالیں ہیں۔ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بندے کا اللہ کے ا وپر توکل اوربھروسہ محض مفرو ضہ ہے۔ جس بندے کے اندر توکل اور بھروسہ نہیں ہوتا اس کے اندر إستغناء بھی نہیں ہوتا۔ توکل اور بھروسہ دراصل ایک خاص تعلّق ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان قائم ہے اور جس بندے کا اللہ کے ساتھ یہ تعلّق قائم ہو جاتا ہے اس کے اندر سے دنیا کا لالچ نکل جاتا ہے۔ ایسا بندہ دوسرے تمام بندوں کی مدد و اِستعانت سے بےنیاز ہو جاتا ہے۔ وہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ کی صِفات یہ ہیں کہ:
اللہ ایک ہے…
اللہ بےنیاز ہے… اللہ مخلوق سے کسی قسم کی احتیاج نہیں رکھتا…
اللہ نہ کسی کا بیٹا ہے…اور
نہ کسی کا باپ ہے….
اللہ کا کوئی خاندان بھی نہیں ہے…..
اِن صِفات کی رَوشنی میں جب ہم مخلوق کا تجزیہ کرتے ہیں تو….
مخلوق ایک نہیں ہے…. مخلوق ہمیشہ کثرت ہوتی ہے…
مخلوق زندگی کے اعمال و حرکات پورے کرنے پر کسی نہ کسی احتیاج کی پابند ہے….
یہ بھی ضروری ہے کہ مخلوق کسی کی اولاد ہو…. اور
یہ بھی ضروری ہے کہ مخلوق کی کوئی اولاد ہو…. اور
مخلوق کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا کوئی خاندان ہو۔
اللہ کی بیان کردہ ان پانچ ایجنسیوں میں جب ’’قلندر شعور‘‘ تفکر سے کام لیا جاتا ہے تو یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ اللہ کی بیان کردہ پانچ صِفات میں سے مخلوق ایک صِفَت میں اللہ کی ذات سے براہِ راست تعلّق قائم کر سکتی ہے۔ مخلوق کیلئے یہ ہرگِز ممکن نہیں کہ وہ کثرت سے بےنیاز ہو جائے۔ مخلوق اس بات پر بھی مجبور ہے کہ اس کی اولاد ہو یا وہ کسی کی اولاد ہو۔ مخلوق کا خاندان ہونا بھی ضروری ہے۔
اللہ کی پانچ صِفات میں سے چار صِفات میں مخلوق اپنا اِختیار استعمال نہیں کر سکتی۔ صرف ایک حیثیت میں مخلوق اللہ کی صِفات سے ہم رشتہ ہو سکتی ہے۔ وہ صِفَت یہ ہے تمام وسائل سے ذہن ہٹا کر اپنی ضروریات اور احتیاج کو اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیا جائے۔ بندے کے اندر اگر مخلوق کے ساتھ احتیاجی عوامِل کام کر رہے ہیں تو وہ توکل اور بھروسے کے اعمال سے دُور ہے۔
روحانیت کے راستے پر چلنے والے مسافر کو اس بات کی مشق کروائی جاتی ہے کہ زندگی کے تمام تقاضے اور زندگی کی تمام حر کات و سکنات جب شاگرد دَر و بَست پیر و مرشد کے سپرد کر دیتا ہے تو وہ اس کی تمام ضروریات کا کفیل بن جاتا ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح ایک دودھ پیتے بچے کے کفیل اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ جب تک بچہ شعور میں داخل نہیں ہوتا، ماں باپ چَوبیس گھنٹے اس کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ گھر کا دروازہ نہ کھلے کہ بچہ باہر نکل جائے گا، سردی ہے تو بچے نے کپڑے کیوں اتار دئیے؟ سردی لگ جائے گی، کھانا وقت پر نہیں کھایا تو ماں باپ پریشان ہیں کہ بچے نے کھانا وقت پر کیوں نہیں کھایا، بچہ ضرورت سے زیادہ سو گیا تو اس بات کی فکر کہ کیوں زیادہ سو گیا۔ نیند کم آئی تو یہ پریشانی ہے کہ بچہ کم کیوں سویا۔ ہر شخص جو پیدا ہُوا ہے اور جس کی اولاد ہے اور جس نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو دیکھا وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ بچے کی تمام بنیادی ضروریات کے کفیل اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ اور یہ کفالت اس طرح پوری کی جاتی ہے کہ جس کا تعلّق بچے کے اپنے ذہن سے قطعاً نہیں ہوتا۔ چونکہ شاگرد، مرید یا چیلہ پیر و مرشد،مراد یا شیخ کی روحانی اولاد ہوتا ہے اس لئے وہ مرید کی دینی، دنیاوی، اور روحانی ہر طرح کی کفالت کرتا ہے اور جیسے جیسے کفالت بڑھتی ہے پیر و مرشد کا ذہن مریدکی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ جب شیخ مرید کی کفالت کرتا ہے تو مرید کا لاشعور یہ بات جان لیتا ہے کہ جو بندہ میری کفالت کر رہا ہے اس کا کفیل اللہ ہے اور رفتہ رفتہ اس کا ذہن آزاد ہو جاتا ہے اور اس کی تمام ضروریات اور تمام احتیاجات اللہ کے ساتھ قائم ہو جاتی ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 69 تا 72
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔