تقریبِ رُونمائی کتاب”مراقبہ”سے خطاب
مکمل کتاب : خطباتِ لاہور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17539
ممتاز رُوحانی اسکالرجناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی نئی کتاب”مراقبہ”کی تقریب ِ رونمائی لاہور آرٹس کونسل کے الحمراء ہال نمبر ۲ میں ۹ اپریل ۱۹۹۵ء کو منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی صدارت سپیکر پنجاب اسمبلی اور قائم مقام گورنر (پنجاب) جناب حنیف رامے نے کی۔ حاضرین سے صدرِ تقریب جناب حنیف رامے، مصنفِ کتاب جناب خواجہ شمس الدین عظیمی کے علاوہ ممتاز ادیب جناب اشفاق احمد، ڈاکٹر فخر النساء (سابق پرنسپل فاطمہ جناح میڈیکل کالج)، ڈاکٹر رشید چوہدری (چیئرمین فاؤنٹین فاؤنڈیشن) اور میاں مشتاق احمد عظیمی نے خطاب کیا۔
تقریب رونمائی میں چار سو سے زائد خواتین و حضرات نے شرکت کی جو اس قسم کی تقریبات کے حوالے سے ایک ریکارڈ ہے۔ تقریب رونمائی میں شرکت کیلئے قومی اسمبلی کے اطلاعات و نشریات کمیٹی کے چیئر مین قاضی اسد عابد، وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر ڈاکٹر مسعود طارق خصوصی طور پر لاہور تشریف لائے تھےْ اس کے علاوہ تقریب میں آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کے صدر مصطفیٰ صادق، اے پی این ایس کے نائب صدر ممتاز طاہر، سی پی این ای کے سابق جنرل سیکریٹری جمیل اطہر، قومی طبی کونسل کے صدر منبر نبی خان، طبی کونسل کے رکن اور ڈائریکٹر پروجیکٹ حکیم ادریس بخاری، اقبال شاہد کے علاوہ ممتاز وکلاء صحافیوں، ڈاکٹروں، ادیبوں اور دانشوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
قاری کاشف نعیم نے تلاوتِ کلام پاک اور خالد جاوید نے ہدیۂِ نعت بحضور سرورِ کائنات ﷺ پیش کیا اور تقریب کی نظامت کے فرائض سید طاہر جلیل عظیمیؔ نے انجام دیئے۔
تقریب کے شرکاء میں مثالی نظم و ضبط دیکھنے میں آیا۔ یہ ایک سادہ مگر پُر وقار اور منظم تقریب تھی۔ حاضرین نے ہر مقرّر کو بہت توجّہ سے سنا اور وقتاً فوقتاً تالیاں بجا کر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے رہے۔ اشفاق احمد اور ڈاکٹر فخرالنساء کی تقاریر کو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔
عظیمیؔ صاحب نے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:
تفکر کرنے، کنسنٹریشن کرنے، کسی ایک نقطہ پر ذہن مرکوز کرنے اور اس نقطہ کے اَندر کیا ہے؟… اس کوڈھونڈنے کا نام ‘‘مراقبہ’’ ہے۔ مراقبے کی اصطلاح وہ انگریزی میں ہو یا اردو میں ہو، سندھی میں ہو، کسی بھی زبان میں ہو…. یہ بات ہمارے اوپر ظاہر کرتی ہے کہ مراقبہ ایک ایسا اصطلاحی نام ہے…. جس کا مفہوم اس کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا کہ کسی چیز کا کھوج لگانا…. کسی چیز کے اَندر اتر جانا اور ریسرچ کرنا۔ ساڑھے گیارہ ہزار انسانی صلاحیتوں میں سے کسی ایک صلاحیت کے اوپر ذہن مرکوز کرنا اور اُس صلاحیت کے پیچھے کیا ہے؟…. اُس صلاحیت کے پسِ پردہ اللہ تعالیٰ کی کون سی مشیئت کام کر رہی ہے؟…. اُس کو ڈھونڈنا اور تلاش کرنا…. یہ مراقبے کا مفہوم ہے۔
مراقبہ محض علم نہیں۔ مراقبہ ایک طرزِ زندگی ہے۔
یہ زمانہ سائنسی ترقی کا زمانہ ہے۔ سَو سال پہلے ہم ٹیلی فون سے واقف نہیں تھے۔ ٹی وی اور کار سے واقف نہیں تھے۔ اب اگر سَو سال پہلے کا آدمی آج یہاں آجائے تو اسے کچھ سمجھ نہیں آئے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ گزر رہا ہے عمل بھی بڑھ رہا ہے۔ آدم و حوّا کے زمانے میں آدمی پتے کھاتے اور درخت کی جڑیں استعمال کرتے تھی۔ پھر آدم کی اولاد نے پتھر کا استعمال سیکھا۔ اُس دَور کو ہم Stone-Age کہتے ہیں۔ پھر آدم کی اولاد میں مزید اضافہ ہوا اور اس نے مزید علم سیکھا․․․․․ اس نے آگ کا استعمال کیا، جب آگ کا استعمال سیکھ لیا تو لوہے کا استعمال شروع ہُوا۔ پھر مزید ترقی ہوئی اور آدم کے بچوں نے نت نئے علوم سیکھے اور بجلی کا استعمال کیا۔ آج کے زمانے میں انسانی ترقی کی سب سے بڑی وجہ بجلی ہے۔ اب دیکھیں کہ آج کوئی بھی چیز بجلی کے بغیر نہیں چلتی․․․․․ ہوائی جہاز، ٹی وی، فریج، ہیٹر، ایئر کنڈیشنر سب بجلی سے چلتے ہیں۔ اگر بجلی نہ ہو تو ٹیلی فون، ٹی وی اور ریڈیو سب بے کار ہیں۔
بجلی دو طریقے سے استعمال ہتی ہے۔ موبائل فون میں جب آواز آتی ہے تو وہ بجلی یا کرنٹ ہوتا ہے جو آواز میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ بجلی ہمیں نظر نہیں آتی․․․․․ آج سائنس یہ بات جان گئی ہے کہ انسان بھی بجلی ہے۔ جب دو تار آپس میں ملتے ہیں تو جھٹکا لگتا ہے یا دو تار ملنے سے Sparkingہوتی ہے۔ جب ایک بیٹا اور ماں گلے ملتے ہیں تو اس وقت بھی بجلی کا جھٹکا لگتا ہے۔ جب میاں بیوی آپس میں ملتے ہیں تو اس وقت بھی دونوں کو بجلی کا احساس ہوتا ہے اور دونوں بجلی کے جھٹکے کو محسوس کرتے ہیں۔ اگر دو آدمیوں میں بجلی نہ ہو تو حواس ختم ہوجائیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی بجلی کے علاوہ کچھ نہیں۔ سائنس نے انسانی بجلی کا نام Auraرکھا ہے۔ جب ہم موبائل فون پر بات کرتے ہیں تو کہیں نہ کہیں سے ہمیں انفارمیشن ملتی ہے۔ وہ ہم سنتے ہیں پھر ہم بات کرتے ہیں۔ اگر ہمیں انفارمیشن نہ ملے تو ہم بات نہیں کرسکتے۔ کوئی آدمی اس وقت تک کوئی کام نہیں کرتا جب تک اس کو وہ کام کرنے کا خیال نہ آئے۔ خیال کا نام ہم انفارمیشن رکھتے ہیں۔ جب تک انفارمیشن نہیں ملتی ہم پانی نہیں پی سکتے۔ ہم نے پانی پینے کی انفارمیشن کا نام پیاس رکھا۔ کھانا کھانے کی انفارمیشن کا نام بھوک رکھا۔ سونے کی انفارمیشن کا نام نیند رکھا۔ جب ہم سونے کے بعد اٹھتے ہیں تو اس انفارمیشن کو بیداری کہتے ہیں۔ اب آپ موبائل فون کا تصوّر کریں۔ اگر موبائل فون میں انفارمیشن نہ آئے تو ہم اس کے ذریعے آواز نہیں سن سکتے، اس انفارمیشن کو بھی ہم بجلی کہتے ہیں۔ اسی طرح انسان بھی Electricityہے اور انفارمیشن ہے۔ اگر ٹیلیفون کے اَندر بجلی آنا بند ہوجائے توٹیلی فون ڈیڈ ہوجاتا ہے۔ ٹی وی میں بجلی نہ آئے تو ٹی وی اسٹیشن کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ کار پٹرول سے نہیں چلتی۔ پٹرول کے ذریعے انجن جو بجلی بناتا ہے اس سے کار چلتی ہے۔ اگر اسپارکنگ سے پٹرول نہ جلے تو گاڑی نہیں چل سکتی۔ اس کے علاوہ یہ جتنی بڑی بڑی مشینیں ہیں، سب بجلی سے چلتی ہیں۔
انسان کے اَندر جو بجلی ہے اس کا نام رُوح ہے۔ جب انسان کے اَندر سے رُوح نکل جاتی ہے تو وہ بے کار ہوجاتا ہے۔ اب آپ خیال کریں کہ ایک زندہ آدمی اور ایک ڈیڈ باڈی ہے۔ ڈیڈ باڈی میں کوئی حرکت نہیں ہے، وہ شادی نہیں کرتی، کاروبار نہیں کرتی، جہاز میں بھی نہیں بیٹھتی․․․․․ کیوں؟․․․․․ اس لئے کہ اس کے اَندر سے رُوح نکل گئی ہے․․․․․!
فرض کریں ایک زندہ انسان ہے وہ ڈیڈ باڈی کے پاس لیٹا ہے ہم اس سے کہتے ہیں بھائی اٹھ کر بیٹھ جاؤ وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے۔ لیکن ڈیڈ باڈی ہماری کہنے سے کیوں اٹھ کر نہیں بیٹھتی ․․․․․ اس لئے کہ اس میں سے رُوح نکل گئی اور وہ آدمی ڈیڈ باڈی ہوگیا۔ رُوح مَوجود ہوگی، آدمی زندہ ہوگا۔ ٹی وی سے بجلی نکل گئی وہ بھی ڈیڈ باڈی ہے۔ بجلی آگئی ٹی وی زندہ ہوگیا۔ ٹیلی فون میں بجلی نہ ہو تو اس میں سے آواز نہیں نکلتی، جیسے ڈیڈ باڈی سے نہیں نکلتی۔ ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے․․․․․ ڈیڈ باڈی ماں اپنے بچے کو دودھ کیوں نہیں پلاتی؟․․․․․ اس لئے نہیں پلاتی کہ اس کے اَندر رُوح نہیں ہے۔ یعنی اصل انسان فزیکل باڈی نہیں ہے!․․․․․․․․․․
ڈیڈ باڈی حرکت نہیں کرتی لیکن جب اس کے اَندر رُوح ہوتی ہے تو وہ حرکت کرتی ہے۔ ہم کھانا بھی کھاتے ہیں، چلتے پھرتے بھی ہیں، کاروبار بھی کرتے ہیں، شادی بھی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری جو اصل ہے وہ ہماری رُوح ہے۔ جب تک انسان اپنی اصل سے واقف نہیں ہوتا اس کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا ہے؟․․․․․انسان روز سوتا ہے روز جاگتا ہے۔ اللہ نے رات سونے کیلئے بنائی ہے، دن کام کرنے کیلئے بنایا ہے۔ جب ہم سوتے ہیں تو ہماری حیثیت مُردہ آدمی کی مانند ہوجاتی ہے اور ہمارا ذہن فزیکل باڈی سے دُور ہو جاتا ہے۔ ہمیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ہمارے ماحول میں کیا ہورہا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم فزیکل باڈی سے آزاد ہو کر بھی زندگی گزارتے ہیں۔ ہر انسان کے اَندر دو دماغ کرتے ہیں۔ ایک دماغ Time & Space میں بند ہو کر کام کرتا ہے اور ایک دماغ ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد ہو کر کام کرتا ہے۔ جو دماغ ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد ہو کر کام کرتا ہے وہ رُوح کا دماغ ہے اور جو دماغ ٹائم اینڈ اسپیس میں بند ہو کر کام کرتا ہے اسے رُوح نے فزیکل باڈی سے بنایا ہے۔ فزیکل باڈی کا دماغ عارضی ہے۔ اس لئے جو آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کے اوپر موت ضرور آتی ہے۔ کوئی آدمی ایسا نہیں کہ جو آدم سے لے کر اب تک زندہ ہو۔ آدم کا بچہ پیدا ہوتا ہے، بڑا ہوتا ہے، جوان ہوتا ہے، بوڑھا ہوتا ہے اور مر جاتا ہے۔
اب ہم آپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ یہاں 30 سال کے آدمی بھی ہیں، 40 سال کے بھی ہیں۔ کوئی آدمی یہ بتائے کہ اس کے ۳۰ سال کدھر گئے، ․․․․․40 سال کی عمر جب تک نہیں گزرتی، ہم 40 سال کے نہیں ہوتے․․․․․ آدمی پیدا ہوا․․․․․40 سال کا ہوا․․․․․ یہ 40 سال کہاں گئے؟․․․․․ جب آدمی مر گیا تو اس کی یاداشت Memoryکدھر گئی؟․․․․․
اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ 40 سال جہاں بھی گئے وہ سب کا سب غیب ہے․․․․․ بچپن بھی غیب میں چلا گیا، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا بھی غیب میں چلا گیا۔ جب ہم بوڑھے ہوئے تو ہماری جوانی غیب میں چلی گئی․․․․․ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی جو بنیاد (Base) ہے وہ غیب ہے۔ ہم غیب سے آتے ہیں․․․․․ پیدا ہوتے ہیں، مرنے کے بعد غیب میں چلے جاتے ہیں۔
جتنے پیغمبر دنیا میں آئے…. داؤدؑ، سلیمانؑ اور آخری پیغمبر رسول اللہ ﷺ․․․․․ سب نے یہی پیغام دیا ہے کہ ہر انسان کو یہ علم ہونا چاہئے کہ وہ کہاں سے آتا ہے؟ اور مسافر کی سی زندگی گزار کر کہاں چلا جاتا ہے؟
ہر آدمی غیب سے آتا ہے، بڑا ہوتا ہے، جوان ہوتا ہے اور مر جاتا ہے۔ جو لوگ اللہ کو مانتے ہیں ان پر بھی یہی قانون عائد ہوتا ہے وار جو نہیں مانتے ان پر بھی اسی قانون کا اِطلاق ہوتا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اسے یہ بالکل نہیں پتہ ہوتا کہ وہ کہاں پیدا ہوگا؟․․․․․ پاکستان میں پدگا ہوگا؟․․․․․ روس میں پیدا ہوگا؟․․․․․ یا چِین میں پیدا ہوگا؟․․․․․ امیر کے گھر پیدا ہوگا یا غریب کے گھر پیدا ہوگا؟․․․․․ جہاں اللہ چاہتا ہے پیدا ہوجاتا ہے اور جب تک اللہ اس کو اس دنیا میں رکھتا ہے وہ رہتا ہے…. پھر مر جاتا ہے۔ کوئی انسان نہ اپنی پیدائش پر اختیار رکھتا ہے اور نہ اس بات پر اختیار رکھتا ہے کہ وہ کب مَرے گا؟
انسان درحقیقت انفارمیشن ہے۔ انفارمیشن بجلی ہے۔ جب تک آدمی کے اَندر بجلی نہیں آتی وہ کام نہیں کر سکتا۔ آپ یہاں بیٹھے ہیں۔ جب تک آپ کو خیال نہ آئے کہ مجھے باہر جانا ہے تو آپ باہر نہیں جا سکتے۔ جب خیال آئے گا تب ہی جائیں گے۔ جب کھانا کھانے کا خیال آئے گا کھانا کھائیں گے۔ جب پانی پینے کا خیال آئے گا پانی پئیں گے۔ جب دوست بنانے کا خیال آئے گا تو دوست بنائیں گے اور جب شادی کا خیال آئے گا تو شادی کریں گے۔ اگر شادی کا خیال نہ آئے تو ہر گز شادی نہیں کریں گے۔ چنانچہ انسان انفارمیشن کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور انفارمیشن کا جو نظام ہے وہ رُوح کے اوپر قائم ہے۔ اگر ہم اپنے اَندر کی انفارمیشن سے واقف ہوجائیں تو ہم آسانی سے اپنی رُوح سے واقف ہوسکتے ہیں۔ رُوح چونکہ غیب ہے اسلئے وہ غیب کے سارے نظام سے واقف ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ رُوح کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے جب قرآن پاک میں انسانی جسم کا تذکرہ فرمایا تو کہا کہ انسان کو مٹی سے تخلیق کیا۔ یہ بھی فرمایا کہ گُندھے اور سڑے ہوئے تعفن والے گارے سے پیدا کیا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس مٹی سے انسان کو پیدا کیا وہ بجنی مٹی ہے۔ بجنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو خلاء سے پیدا کیا۔ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کا پُتلا بنایا اور اس کے اَندر اپنی رُوح ڈال دی۔ جب انسان میں جان پڑگئی تو انسان میں حواس متحرک ہوگئے․․․․․ انسان کی ساری زندگی حواس پر مشتمل ہے․․․․․ سننا، دیکھنا، محسوس کرنا، چکھنا یہ سب حواس کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
جسم کی حیثیت سے تو ہم واقف ہیں۔ جسم کے جو Organsہیں، اعضاء ہیں ہم ان سے بھی واقف ہیں۔ آنکھیں ہیں، کان ہیں، دل ہے، گردے ہیں․․․․․ لیکن ہمیں اس بات سے واقفیت حاصل نہیں ہے کہ یہ جو دل کی Beatہے، اس کی جو حرکت ہے، یہ کہاں سے آرہی ہے؟․․․․․․․․․․وہ کون سا قانون ہے، وہ کون سی انفارمیشن ہے جس کی بنیاد پر جب دل حرکت کرنا بند کردیتا ہے تو انسان مرجاتا ہے؟․․․․․ لیکن اگر دل کی حرکت دوبارہ شروع کردی جائے تو آدمی زندہ ہوجاتا ہے۔
دوسری بات ہمیں یہ معلوم کرنی ہے کہ ہر انسان کی زندگی دو رخوں پر مشتمل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ ہر یونٹ دو رخوں سے مرکب ہے۔ حَواس کے بھی دو رُخ ہیں۔ ایک رُخ Time & Space کا پابند ہے اور دوسرا رخ ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد ہے۔ اس کی پریکٹس ہمیں چوبیس گھنٹوں میں دو مرتبہ ہوتی ہے۔ جب سے ہم پیدا ہوئے ہیں اور جب ہم مرتے ہیں تو دو دفعہ ہمارے اوپر یہ کیفیات طاری ہوتی ہیں کہ ایک کیفیت کو لیل و نہار کہا ہے۔ سورۂ یٰسین میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ “ہم رات پر سے دن کو ادھیڑ لیتے ہیں اور دن پر سے رات کو ادھیڑ لیتے ہیں۔”․․․․․یہ دو رُخ انسان میں پیدائش کے لمحے سے شروع ہوجاتے ہیں اور اَسّی نوّے سال جتنی بھی آدمی کی زندگی ہوتی ہے یہ دونوں رخ اس کے ساتھ چپکے رہتے ہیں۔ ان دو رُخوں کے بغیر کوئی بھی انسان کسی بھی طرح اس دنیا میں زندگی کا تصور نہیں کرسکتا۔
جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو ہمارے اوپر ٹائم اسپیس کی حدود مسلّط ہوجاتی ہیں۔ مثلاً ہم دو قدم بھی چلنا چاہیں تو ہمیں Spaceسے بیم گزرنا ہوگا اور وقت بھی لگے گا․․․․․ دوسرا جو عمل ہے وہ بیداری کے بعد خواب کا عمل ہے۔ کوئی انسان کوئی شجر، کوئی حجر، کوئی حیوان، کوئی پرندہ اس قانون سے مُبرّا نہیں ہے کہ…. وہ سوئے… پھر بیدار ہو… اور پھر سوجائے۔ سائنسدانوں کا قیاس ہے کہ دنیا کی عمر تین ارب سال ہے۔ اِس کی کوئی سند نہیں ہے یہ محض ان کا خیال ہے۔ تین ارب سال کی اس عمر میں بھی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے کہ کوئی آدمی ساری عمر سوتا رہا ہو، یا ساری عمر جاگتا رہا ہو۔ جب ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم خواب دیکھتے ہیں…. اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ سعادت نصیب فرمائے کہ ہم دیکھیں کہ مسجد ِ نبویؐ میں حاضر ہیں اور حضورعلیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے مَواجِہَۃ شریف میں صلوٰۃ و سلام پیش کر رہے ہیں۔ اگر ہم بیداری کی حالت میں اس پوزیشن میں وہاں حاضر ہونا چاہیں تو پیدل چل کر جانے میں تین چار مہینے لگتے ہیں، پانی کے جہاز پر ہفتہ لگتا ہے، ہوئی جہاز پر کچھ گھنٹے لگتے ہیں یعنی ہمیں اسپیس سے بھی گزرنا پڑتا ہے اور وقت بھی لگتا ہے۔ لیکن جب ہم خواب دیکھتے ہیں تو ہم رسول اللہ ﷺ کے دربار میں سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں حاضر ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی ہاھرا انگوٹھا ہلائے تو ہم سیکنڈ کے ہزارویں حصّے میں واپس اپنے جسم میں آجاتے ہیں…. اِس کا واضح مطلب یہ ہے کہ خواب کی زندگی میں ٹائم اسپیس کی گرفت سے ہر انسان آزاد ہو جاتا ہے۔ جسم و جان کے رشتے میں خواب کی بڑی اہمیت ہے․․․․․ بیداری کی بھی بڑی اہمیت ہے․․․․․ ٹائم اسپیس کی بھی بڑی اہمیت ہے، ٹائم اسپیس سے آزاد ہونے کی بھی بہت اہمیت ہے۔
لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہے جب جسم میں رُوح مَوجود ہو۔ اگر رُوح موجود نہیں تو وہ بے جان، مُردہ ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔ تمام اختیارات، تمام افعال اسی وقت زیر بحث آئیں گے جب رُوح جسم کے اَندر ہو، انسان اس حقیقت کو سمجھے بغیر…. مَیں نے یہ کیا…. مَیں نے وہ کیا…. کہتا رہتا ہے…. حالانکہ یہ ‘‘مَیں’’ تو اس وقت زیر بحث آنی چاہئے کہ جب آدمی کے کوئی چیز تو اختیار میں ہو…. یا اُس کا تصرّف ہو۔
ہمارا عام مشاہدہ ہے کوئی انسان مرنا نہیں چاہتا مگر اپنی مرضی کے بَرخلاف اسے آخر مرنا ہی پڑتا ہے۔ کوئی عالَمِ شباب کو کھونا نہیں چاہتا مگر پھر بھی بڑھاپا اس پر آکر رہتا ہے۔ اَعصاب مضمحل اور قُویٰ کمزور پڑجاتے ہیں۔ دَراصل یہ دنیا ایک دھوکا ہے اور ہر فرد کردار ہے۔ دنیا کی اسٹیج پر اگر ایک کردار اچھا ہے تو سب اسے اچھا کہتے ہیں اور اگر کردار بُرا ہے تو سب بُرا کہتے ہیں۔ انسان دراصل اپنے کردار کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ جب انسان یہ جان لیتا ہے کہ انسان کردار کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو حقیقت اس پر آشکار ہونے لگتی ہے اور جب تک وہ دنیا کو سب کچھ سمجھتا رہتا ہے تو وہ اس حقیقت سے ناواقف رہتا ہے۔ اس کا ذہن اس حقیقت کی طرف نہیں جاتا کہ وہ پیدا ہونے اور مرنے پر بے اختیار ہے۔ وہ سَدا جوان رہنا چاہتا ہے مگر بڑھاپا خراماں خراماں اُسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، دانت ٹوٹ جاتے ہیں۔ آنکھوں میں موتیا اور ٹانگوں میں خم آ جاتا ہے اور گھسٹتے گھسٹتے آدمی مر جاتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ مرتّب ہوا کہ…. ‘‘مَیں’’ کچھ نہیں ہے…. تو انسان کیا ہے؟
قرآن مجید اس طرف یوں روشنی ڈالتا ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4) ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (5) – [سورۃ التِّین]
یعنی انسان میری بہترین صنّاعی ہے لیکن اَسفلَ سافلین میں پڑا ہے۔ بہترین صنّاعی سے مراد یہ ہے کہ کائنات میں جتنی بھی تخلیقات ہیں ان میں انسان وہ واحد تخلیق ہے جو اللہ تعالیٰ کے نظام کو سمجھ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے لیکن اگر وہ خود اس نظام کو سمجھنا نہ چاہے تو اس سے بڑا جاہل، نا شکرا اور کفرانِ نعمت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔”
اللہ کے اس نظام کو سمجھنے کی بنیاد پر انسان اشرف المخلوقات ہے۔
آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ انسان کا شرف کیا ہے؟ اور اس کو دوسری مخلوقات پر کیا فضیلت حاصل ہے۔ اگر فضیلت کی بنیاد شعور پر رکھی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ شہد کی مکھی میں نظم و ضبط اور تنظیم انسان سے کہیں بہتر پائی جاتی ہے۔ اس ہر اللہ تعالیٰ وحی نازل کرتے ہیں۔ ہم کتے کو نجس اور ناپاک کہتے ہیں اور دوسری منشیات سونگھنے کیلئے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہ اس کی حسیات انسان سے بہتر ہیں۔ پرندوں میں بے باکی عقل و شعور کو دیکھ کر ہم دنگ رہ جاتے ہیں جب وہ اپنے گھونسلے میں روشنی حاصل کرنے کیلئے جگنوؤں کو مقید کردیتا ہے۔ چیونٹیوں میں نظم و نسق قائم کرنے کا پورا نظام متحرک ہوتا ہے اور برسات کے آنے سے پہلے غلہ جمع کرلیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر پرندہ اور جانور یہ جانتا ہے کہ اس نے کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا، جیسے بکری گوشت نہیں کھاتی اور شیر گھاس نہیں کھاتا۔
آپ اس پر جتنا بھی غور و فکر کریں گے یہ بات واضح ہوتی چلی جائے گی کہ عقل و شعور کی بناء پر انسان زمین کی چھوٹی سے چھوٹی مخلوق سے لے کر بڑی سے بڑی مخلوق پر ہرگز ممتاز نہیں۔ اسی طرح آدمی روزی کمانے کیلئے جو کوشش و محنت کرتا ہے، دیگر مخلوقات چرند و پرند بھی اپنے بچوں اور اپنے لئے رزق تلاش کرتے ہیں۔ جہاں تک بیماریوں کا تعلق ہے تو انسان میں حیوانات کی نسبت بیماریاں زیادہ اور پیچیدہ ہوتی ہیں۔
انسان کا شرف در اصل اس بات پر ہے کہ اللہ نے آدم کو وہ علوم سکھائے ہیں جو کسی اور مخلوق کو نہیں سکھائے۔ ان علوم کو قرآن حکیم کی زبان میں ‘‘الأسماء’’ کہا گیا ہے۔ یہ اسماء اللہ کے نام اور صفات ہیں اور…. صفاتِ الٰہیہ تخلیقی مراحل کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ خالق کی صفت یہ ہے کہ اسے تخلیقی فارمولوں کا علم آتا ہے۔ اللہ نے انسان کو تخلیقی فارمولوں کا علم سکھایا تاکہ اس کی نیابت اور خلافت کا فریضہ سر انجام دے سکے۔ جس طرح گورنر صدر کے نائب کے طور پر اختیار استعمال کر کے صدر نہیں بن جاتا اس طرح بندہ خالق نہیں بن جاتا بلکہ وہ مخلوق ہی رہتا ہے۔ لیکن اللہ کا نائب اور خلیفہ بن جاتا ہے۔
دور جدید ہو یا قدیم، علم کی اہمیت افادیت سے کسی طور پر انکار نہیں کیا جا سکتا۔ علم کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں۔ ایک مفروضہ اور مادّی علم اور دوسرا حقیقی علم جو مادہ کو تخلیق کرتا ہے۔ انسان علم کے ان دو دائروں سے باہر نہیں نکل سکتا۔ اسی طرح انسان بھی مادّے اور حقیقت دونوں حالتوں کا مرکب ہے۔ ہمارا جسم مادّی وُجود ہے اور اس کومتحرک رکھنے والی اصل حقیقت رُوح ہے۔ رُوح کا علم حقیقی علم ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ علم انسان کے علاوہ کسی اور مخلوق کو نہیں دیا۔ یہی وہ علم ہے جس کی بناء پر انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے اور اسی علم کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے چاند، سورج، ستاروں کو مسخر کردیا ہے کہ وہ چاہے تو ان میں تصرف کرسکے، جیسا کہ حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام نے سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، پتھر کی تسخیر کے معجزات دکھائے۔
آپ نے کبھی سوچا ہے….؟ تفکر کِیا ہے….؟ یا…. مراقبہ کِیا ہے….؟ کہ:
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو کیوں بنایا ؟…. اور یہ ساری خوبصورت تخلیقات کیوں عمل میں آئیں؟ …. جنّت دوزخ کے دو الگ الگ گروہ کیوں وُجود میں آئے؟ …. ظاہری دنیا کے عجائبات اور غیب کی دنیا کے لا محدود عجائبات کو کیوں بنایا گیا؟….. اس کی وجہ خود اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘مَیں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ ایسی کائنات تخلیق کروں جو مجھ سے متعارف ہو کر مجھے پہچان لے۔’’
اِس حدیث قدسی میں تفکر کرنے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آجاتی ہے کہ کائنات کی تخلیق کا منشاء بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ مجھے پہچانا جائے۔ پہچاننے کیلئے ضروری ہے کہ تمام مخلوقات میں سے کسی ایک مخلوق کا انتخاب کیا جائے اور اس منتخب مخلوق کو دوسری مخلوقات کے مقابلے میں زیادہ علم دیا جائے۔ نہ صرف یہ کہ علم دیا جائے بلکہ علم کے اَندر مفہوم اور مَعنویّت تلاش کرنے کی صلاحیت بھی عطا کی جائے۔ جہاں تک علم کی تقسیم کا تعلق ہے، ہر ذی رُوح کے اَندر علم مَوجود ہے۔ ایک بکری یہ جانتی ہے کہ درخت کے پتے میری غذا ہیں۔ لیکن بکری یہ نہیں جانتی کہ بیری کا درخت کس طرح اگتا ہے اور درخت سے درخت اور دوسرے درخت سے تیسرا درخت کیسے اگایا جاتا ہے۔ بھوک پیاس کا علم تمام مخلوقات میں قدرِ مشترک ہے خواہ وہ ذی رُوح ہوں یا انہیں ذی رُوح نہ سمجھا جاتا ہو۔
مخلوق کی دو نوعیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے علم کے اَندر معانی تلاش کرنے اور مفہوم پہنانے کی صلاحیت عطا کی ہے…. ایک انسان اور دوسرے جنّات۔
ذرا تفصیل سے اس بات کو دوسرے پیرائے میں بیان کرتا ہوں تاکہ ذہن کے اوپر الگ سے جو بار پڑ سکتا ہے اس کی شدت کم سے کم ہوجائے۔
ابھی یہ بات عرض کی گئی ہے کہ کائنات دراصل اللہ تعالیٰ کا وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذہن میں مَوجود تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس بات سے واقف تھے کہ کائنات کے تخلیقی خدوخال کیا ہیں۔ اپنے علم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تخلیقی خدوخال کو اپنے حکم اور ارادے سے شکل و صورت بخش دی۔ اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا مخصوص اور ذاتی علم شکل و صورت بن کر وُجود میں آ گیا۔ اب ہم یوں کہیں گے کہ کائنات کی بنیاد، کائنات کی حقیقت…. عِلم اور صرف علم ہے…. یعنی کائنات نام ہے صرف…. اللہ تعالیٰ کے علم کا۔ جب تک یہ علم، علم تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں مَوجود تھا اور جب اللہ تعالیٰ کے ذہن میں یہ علم اپنے معنی مفہوم اور نقش و نگار کے ساتھ ظاہر ہوا تو اس کا نام کائنات بن گیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ بندے مجھے پہچانیں، میرا تعارف حاصل کریں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ خود ایک علم ہیں…. ایسا علم جو ماوراء اور تمام علوم پر محیط ہے…. اس لئے ضروری ہوا کہ مخلوقات میں سے کسی ایک مخلوق کا انتخاب کر کے اسے علم کی دولت سے نوازا جائے۔
قرّعۂِ فال آدم کے حق میں نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو علم سکھایا۔
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها …. (البقرۃ – 31)
اپنی صفات اور اسماء کا علم عطا کیا….. اَسماء سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جو صفات کائنات کے خدووخال میں مَوجود ہیں۔ یہ وہ علم ہے جو آدم کیلئے مخصوص ہے۔ یہ ایسا علم ہے کہ جس سے فرشتے بھی نا واقف ہیں۔ اس علم کی حیثیت اتنی عظمت والی ہے کہ جب یہ علم آدم نے سیکھ لیا تو فرشتوں کو آدم کے سامنے جھکنا پڑا۔
عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ ….. سے مراد یہ ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ کائنات میرے ذاتی علم کا ایک حصہ ہے اور اس علم میں معانی اور مفہوم کے ساتھ بے شمار فارمولے ہیں، جن فارمولوں سے یہ کائنات تخلیق کی گئی اور جن فارمولوں پر یہ کائنات قائم ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں کا علم سکھا دیا، ایسی طرز ہے جو عام سطح کے ذہن کیلئے بیان کی جاسکتی ہے۔
روحانیت میں اسماء سے مراد وہ فارمولے ہیں، جن فارمولوں پر کائنات کی تخلیق کی گئی ہے۔ آدم کو کائنات کی تخلیق کے فارمولے سکھانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جنّت میں بھیج دیا۔ یہ بات بہت زیادہ اہم ہے کہ اس وقت جنّت میں آدم کی پوزیشن ایک ایسے سائنس دان کی ہے جو کائنات کے تخلیقی فارمولوں کا عالِم ہے۔ ان فارمولوں میں بنیادی فارمولا یہ ہے کہ ساری کائنات ایک علم ہے۔ اور آدم اس علم میں معانی اور مفہوم کے ساتھ تصرف کر سکتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے “کُن”ارشاد فرما کر ساری کائنات کو وُجود عطا کردیا ہے، اسی طرح کائنات میں مَوجود تمام تخلیقات پر…. فِي الأَرضِ خَلِيفَة… کی حیثیت سے آدم کو تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
علم الاسماء سکھانے کے بعد”اللہ تعالیٰ نے فرشونں کو جمع کر کے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانا چاہتا ہوں۔ فرشتوں نے عرض کی آپ جسے نائب بنانا چاہتے ہیں وہ زمین میں فساد کرے گا۔ فرشتوں کے اس بیان کا مطلب کیا ہُوا؟ دراصل فرشتے زمین پر خون خرابہ پہلے ہی دیکھ چکے تھے اور ان کو علم تھا کہ آدم سے پہلے جو مخلوق یعنی جنّات مَوجود تھے…. اُس نے زمین پر فساد برپا کردیا تھا اور آدم کی تخلیق کے عناصر تو وہی ہیں جن سے پچھلی مخلوق جنّات نے زمین پر فساد بر پا کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آدم خون خرابہ اور فساد بر پا نہیں کرے گا اور آدم کو اپنے اسماءِ صفات، تخلیق کے فارمولوں، کائنات میں کام کرنے والی مشیئت کا علم عطا کردیا اور آدم سے فرمایا کہ ہم نے جو علم تمہیں سکھایا ہے اسے بیان کرو۔ آدم نے جب ان علوم کی تشریحات بیان کیں تو فرشتوں نے کہا ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہم کو سکھا دیا ہے۔ یہ تو ہم سے بہت زیادہ علم جانتا ہے چونکہ علم میں یہ ہم سے ممتاز ہے اس لئے آپ کے حکم کی تعمیل میں ہم اس کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ جنّات میں سے ایک گروہ نے آدم کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اس گروہ کو مَردود قرار دیا۔ مَردود ہونے میں کیا عوامل پیش آئے؟ یہی کہ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علوم سے اِنحراف برتا، تو اگر آدم کی اولاد نے علم الاسماء کا کھوج نہیں لگایا اور یہ علم نہیں سیکھا تو ابلیس اور آدم میں کیا فرق ہے….!!!؟؟
جب کسی بندے کو علم الاسماء کی روشنی مل جاتی ہے تو یقین کریں اس کے اَندر سے”مَیں”نکل جاتی ہے اور اس کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاء ؒ فرمایا کرتے تھے کہ “پیغمبروں کی طرزِ فکر یہ ہوتی ہے کہ پیغمبر اپنی ذات کی معرفت کسی بات کا تذکرہ ہی نہیں کرتا بلکہ پیغمبر ہمیشہ Care of Allahیعنی اللہ کی معرفت سوچتا ہے۔”
وہ اس آیت کی منہ بولتی تصویر ثابت ہوتا ہے۔
وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا (سورۃ آلِ عمران – 7)
یعنی جن کو علم الاسماء اور مشاہداتی نظر حاصل ہوجاتی ہے وہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا یہ یقین ہے کہ یہاں ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور بے شک اللہ ہی دانا و بینا ہے۔
غور کریں کہ ہم گناہ کب کرتے ہیں؟ گناہ ہم اسی وقت کرتے ہیں جب ہمیں یہ یقین ہوجاتا ہے کہ کوئی ہمیں نہیں دیکھ رہا ہے۔ جب ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے تو پھر ہم گناہ کیسے کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں اور دعویٰ کی حیثیت زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں ہے۔ حقیقت میں یہ ہمارا یقین نہیں ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ ہم تو انسان کے دیکھنے سے گناہ سے باز آجاتے ہیں اللہ کے دیکھنے سے گناہ کیسے کر سکتے ہیں۔ جب انسان کو مشاہداتی نظر حاصل ہو جاتی ہے تو اسے اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے ہر لمحہ اور ہر ساعت سب جگہ اللہ جلوہ گر نظر آتا ہے۔
ایک مرتبہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا….
“ایک پیر صاحب کے دو مرید تھے۔ پیر صاحب نے اپنے ایک مرید کو ایک مرغا اور چھری دی اور کہا اسے کسی ایسی جگہ لے جا کر ذبح کرو جہاں تمہیں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ مرید چھری اور مرغا لے کر نکلا اور تھوڑی ہی دیر میں ذبح کر کے لے آیا۔ اب پیر صاحب نے دوسرے مرید کو ایک مرغا اور چھری دے کر یہی حکم دیا۔ مرید کو گئے ہوئے چوبیس گھنٹے ہوگئے۔ آخر میں زندہ مرغ اور چھری کے ہمراہ واپس آ گیا اور عرض کیا حضور میں تو جہاں بھی گوشہ تنہائی میں گیا اور اس مرغ کے حلق پر چھری رکھی تو نظر آیا کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور آپ نے ایسی جگہ ذبح کرنے سے منع فرمایا تھا جہاں کوئی دیکھ رہا ہو۔”
جو انسان آدم کی وراثت کو استعمال کرتے ہوئے ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کر لے وہ اللہ تعالیٰ کا نا پسندیدہ عمل کس طرح کر سکتا ہے۔ آدم ہی کی اولاد ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی حصول میں بڑی سے بڑی قربانی بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ نے بیاسی سال کی عمر میں بیٹا عطا کیا۔ بیٹا جب چلنے پھرنے کے قابل ہُوا تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اسے ذبح کر دو۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے ذبح کر دیا۔ یہ بات الگ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی قربانی قبول کر کے بیٹے کو بچا لیا مگر حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنی بات پوری کردی۔
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت جو آپ کے باپ آدم ؑ کی نسبت سے ملی ہے ہم نے اس کیلئے کتنی جدو جہد اور کوشش کی ہے۔ اگر اپنے باپ آدمؑ کا ورثہ ہی نہیں ملا تو انسان کہلانے کا مستحق کس طرح ہو سکتا ہے۔ انسان اگر حیوانات سے ممتاز ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ اس کو علم الاسماء حاصل ہے اور یہ علوم انسان کے علاوہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں ہیں۔ جب کوئی انسان عمل الاسماء سیکھ لیتا ہے تو اس پر یہ راز منکشف ہوجاتا ہے کہ یہاں ہر سوُ اللہ تعالیٰ کی قدرت کار فرما ہے۔ جب یہ بات ذہن میں راسخ ہوجاتی ہے تو انسان اللہ کا دوست بن جاتا ہے۔
اللہ کا دوست وہی ہے جو اللہ کو جانتا ہے اور اللہ کو جاننے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی صفات کا علم جانتا ہو۔ اگر آپ پانی کی صفت سے واقف نہیں ہیں تو د رحقیقت آپ پانی ہی سے واقف نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی اللہ کی صفات سے واقف نہیں ہے تو وہ اللہ سے واقف نہیں ہے۔ اللہ کی صفات علم الاسماء ہیں۔ باپ بادشاہ ہے، اس کا بیٹا باپ کی بادشاہت کو قبول نہیں کرتا اور کشکول لئے گداگری کرتا ہے تو اس کو کوئی سعید اولاد نہیں کہہ سکتا۔ کوئی شخص پی ایچ ڈی کرتا ہے لیکن علم الاسماء حاصل نہیں کرتا تو کیا اس کی ڈگری مرنے کے بعد کام آسکتی ہے؟ کوئی ڈاکٹر، انجریئ یا سائنٹسٹ بن جائے تو اسے دنیا میں حیثیت تو مل جائے گی مگر مرنے کے بعد یہ ڈگری اس کے کسی کام کی نہیں۔ پس بندہ اشرف المخلوقات اسی وقت ہے جب اس کو علم الاسماء حاصل ہو۔ جب وہ اپنی رُوح سے واقف ہو اور وہ اللہ کا دیدار و مشاہدہ کرتا ہو…. ورنہ انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔
بندہ اگر اللہ کو دیکھنے کے قاعدے اور ضابطے پورے کردے تو بندہ اللہ کو دیکھ سکتا ہے ؟ـ․․․․․ ازل میں اللہ تعالیٰ نے کُن کہا اور ساری کائنات بن گئی۔ اللہ تعالیٰ نے تمام رُوحوں سے مخاطب ہو کر فرمایا…. اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ …. کہ میں تمہارا رب ہوں۔ رُوحوں نے یہ آواز سنی…. رُوحیں آواز کی طرف مُتوجّہ ہوئیں تو اللہ کو دیکھا اور رُوحوں نے کہا…. قَالُوا بَلیٰ…. جی ہاں آپ ہمارے ربّ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانوں کی اَرواح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہیں اور اللہ کو دیکھنے کے بعد اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرچکی ہیں۔ اب اگر ہم اپنی اصل یعنی رُوح سے واقفیت حاصل کرلیں تو بڑی آسانی سے اللہ کو دیکھ سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (سورة الذاريات – 21)
میرے بندوں میں تمہارے اَندر ہوں تم دیکھتے کیوں نہیں ؟ اب ہمیں کیا کرنا ہے….؟
اپنے اَندر دیکھنا ہے…. اپنے اَندر جھانکنا ہے…. مراقبہ کرنا ہے…. جب کوئی اپنے اَندر جھانکتا ہے تو ایک دن آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے سامنے آجاتے ہیں۔
اب آپ سب حضرات اس حقیقت سے واقف ہوچکے ہوں گے کہ انسان اللہ سے واقف ہوسکتا ہے کیونکہ اس کی رُوح اللہ کو دیکھ چکی ہے اللہ کی آواز سن چکی ہے۔ آپ اپنی رُوح سے بھی واقف ہوسکتے ہیں اور رُوح سے واقف ہونے کا ایک طریقہ مراقبہ ہے۔
جب کوئی علم سیکھتے ہیں یا کسی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم ایک طریقہ اختیار کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اس چیز کو سمجھنے اور جاننے کیلئے تفکر کرتے ہیں اور ہمارے ذہن میں یہ تجسّس پیدا ہوتا ہے کہ اس چیز کی اصلیت کیا ہے…. یہ کیوں اور کس لئے ہے….؟ اگر چھوٹی سے چھوٹی بات میں تفکر کیا جائے تو اس چھوٹی سی بات کی بڑی اہمیت ہے اور اگر کسی بڑی سے بڑی بات پر غور و فکر نہ کیا جائے تو وہ بڑی بات غیر اہم اور فضول بن جاتی ہے۔ تفکر سے ہمیں کسی شئے کے بارے میں علم حاصل ہوتا ہے اور پھر تفکر کے ذریعہ اس علم میں جتنی گہرائی پیدا ہوتی ہے اسی مناسبت سے کسی چیز اور اس کی صفات سے ہم باخبر ہوجاتے ہیں۔
مراقبہ دراصل اس تفکر کا نام ہے جس سے انسان اس علم کو حاصل کر لیتا ہے جو اس کی اپنی انا، ذات، شخصیت یا رُوح کا علم ہے۔ یہ علم حاصل ہونے کے بعد کوئی انسان اپنی اَنا اور رُوح سے وقوف حاصل کر لیتا ہے اور رُوح سے واقفیت کے بعد انسان اللہ سے واقف ہوجاتا ہے…. جو کہ انسان کی زندگی کا مقصد ہے اور آدمؑ کا ورثہ ہے۔
آدمؑ کے اس ورثے کا عام کرنے کیلئے اور اس علم کے پھیلاؤ کیلئے میں نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے یہ کتاب “مراقبہ”لکھی۔ اس کتاب کا منشاء صرف اور صرف یہ ہے کہ نوعِ انسانی اس ورثے کو حاصل کر لے جو اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو علم الاسماء کی شکل میں عطا فرمایا تھا۔
اللہ تعالیٰ سب کو آدمؑ کے اس ورثے کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اور اللہ تعالیٰ آپ سب کو خوش رکھے۔(آمین) السّلام علیکم!
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 127 تا 140
خطباتِ لاہور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔