تعویذ گنڈے سے علاج
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=21959
لیکن حکیم صاحب کو کچھ نظر نہیں آیا۔آخر حکیم صاحب نے یہ فیصلہ دیا کہ لڑکی کو دورہ اسی کمرے میں پڑتا ہے کسی اور کمرے میں نہیں۔اس بیماری کی ابتداء اسی کمرے سے ہوئی ہے۔جس طرح بھی ممکن ہو ا میں اس کا علاج کروں گا۔انہوں نے تبریدیں پلائیں اور اس کے بعد مُسہل دیئے۔با ر بار ایسا کیا لیکن لڑکی کے دماغ سے وہ بات نہ نکلنی تھی اور نہ نکلی۔پریشان ہوکر حکیم صاحب نے ایسا قیمتی نسخہ لکھا جو دماغ کو تقویت پہنچائے۔اس کو بھی پوری طرح استعمال کرنے کے بعد حالت وہی رہی۔دورہ کی حالت میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی۔آخر حکیم صاحب نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس کا علاج ممکن ہے کوئی تعویز گنڈے والا کردے۔میں تو عاجز آگیا ہوں۔اب میرے پاس اس کے لئے کوئی دوا نہیں ہے۔
محلہ کے چند آدمیوں نے سوداگر کو مشورہ دیا کہ تم شاہ عبدالعزیز ؒ کے پاس جاؤ۔دیکھو وہ کیا کہتے ہیں۔شاہ عبدالعزیز ؒپڑوس میں ہی رہتے تھے۔
شاہ صاحبؒ نے یہ تو مناسب نہیں سمجھا کہ وہ لڑکی مدرسہ میں آئے البتہ وہ وقت نکال کے سوداگر کے یہاں تشریف لے گئے۔لڑکی کو دیکھا۔اس سے باتیں کیں اور اس کا نام پوچھا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ جب شاہ عبدالعزیزؒ اس کے گھراور اس کمرے میں تھے لڑکی بالکل ٹھیک اور ہوش وحواس میں رہی۔اس نے لڑکے کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔اس نے کہا۔
’’ ایسا کسی کسی وقت ہوتا ہے لیکن اس وقت وہ لڑکا میرے سامنے نہیں ہے‘‘
شاہ صاحب ؒ نے اس کے باپ سے فرمایا کہ تمہاری لڑکی بالکل بھلی چنگی ہے بتاؤاب میں کیا کروں اس کو اپنے کمرے میں کچھ نظر نہیں آتا۔اپنی لڑکی سے کہو کہ وہ اس لڑکے کو آواز دے تاکہ وہ لڑکا سامنے آئے۔میں اسے دیکھناچاہتا ہوں۔
لڑکی نے جن لڑکے کو آواز یں دیں۔اس کا نام لے کر بھی پکارا لیکن کوئی واقعہ ظہور نہیں ہوا۔
شاہ صاحب ؒ واپس آگئے وہ برابر سوچتے رہے کہ کیا ترکیب کی جائے۔اگر کوئی جن اس لڑکی پر آتا ہے تو کس طرح معلوم کیا جائے وہ اپنی جگہ بیٹھ کر اس معاملے کو گہرائی تک سوچتے رہے اور برابر غور و فکر کرتے رہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس کے بعد لڑکی غائب ہونا شروع ہوگئی وہ کئی کئی دن تک غائب رہتی اور پھر یا تو چھت پر سے اترتی نظر آتی یا لوگ دیکھتے کہ کسی کمرے میں سے باہر آرہی ہے۔
اب لوگوں نے لڑکی سے پوچھا بار بار غائب ہونے کا مطلب کیا ہے؟ تو اتنے دن کہاں غائب رہتی ہے؟
اس لڑکی نے صاف صاف بتادیا کہ مجھے جنات لے جاتے ہیں اور وہاں میری بہت تواضع کرتے ہیں مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
اکثر میں دیکھتی ہوں کہ جب میرا دل گھبراتا ہے تو وہ مجھے یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔میں وہاں خود کو ایک باغ میں دیکھتی ہوں۔یہ باغ بہت دلفریب او ر خوبصورت ہے اس باغ میں جگہ جگہ گلاب کے تختے اور بے شمار رنگ برنگے پھول ہیں۔باغ کے درمیان میں ایک حوض ہے اور حوض کے کنارے سنگ مرمر کا ایک خوبصورت محل ہے۔میری خدمت کے لئے وہاں کئی کئی عورتیں ہیں۔جب میں آجاتی ہوں اس وقت ہی میرے پاس سے ہٹتی ہیں اور جس وقت میں وہاں نیند سے بیدار ہوتی ہوں ایک عورت پانی کا آفتابہ اور سلفچی میرے سامنے لاتی ہے اور مجھے وضو کراتی ہے۔وضو کے بعد میں نماز ادا کرتی ہوں۔تھوڑی دیر میں ناشتے کا وقت ہوجاتا ہے۔ناشتے سے فارغ سے ہوکر کئی لڑکیاں جو میری ہم عمر ہیں قریب گھروں سے میرے پاس آجاتی ہیں۔اگر چہ میں زیادہ تر خاموش رہتی ہوں لیکن ان لڑکیوں کی معیت میں میرا دل نہیں گھبراتا اور نہ مجھے تنہائی محسوس ہوتی ہے۔ بعض اوقات میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ یہ لڑکیا ں جنات میں سے ہیں اور میں انسان ہوں پھر بھی کوئی غیریت میرے دل میں نہیں آتی۔بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب ایک ہی نسل اور ایک ہی قوم ہیں ہماری گفتگو بھی اسی طرح ہوتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 104 تا 106
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔