تصوّف اور مُعترضین
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19940
ایک طبقہ اعتراض کرتا ہے کہ تصوّف کا اسلام میں کوئی ’’کردار‘‘ نہیں ہے اسے اسلام میں زبرستی داخل کردیا گیا ہے۔ایک اور طبقہ یہ کہتا ہے کہ تصوّف یا روحانی مکتبۂ فکر ’’افیون‘‘ ہے ان علوم کو سیکھ کر آدمی مفلوج ہوجاتا ہے۔صوفی دنیاوی نعمتوں سے اس لئے فرار حاصل کرتا ہے کہ دنیا میں موجود تلخ حقیقتوں کا مقابلہ کرنے کی اس میں ہمت نہیں ہوتی کم ہمتی، سستی، کاہلی اور بزدلی کی وجہ سے وہ گوشہ نشین ہو جاتا ہے۔
یہ بحث ہزاروں سال سے جاری ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تصوّف بدھ مت سے ماخوذ ہے ان لوگوں کا دنیا سے قطع تعلق درحقیقت گوتم بدھ کی تقلید ہے،بدھا صاحب نے تخت و تاج چھوڑ کرفقر و فاقہ کی زندگی اختیار کرلی تھی۔ اسی طرح مسلمان صوفیا ء نے بھی دنیاوی لذتوں،آسائشوں اور راحت و آرام ترک کرکے جنگلوں اور غاروں کو اپنا مسکن بنا لیا
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صوفی حضرات بے عملی کی سنہری زنجیروں میں خود کو گرفتار کرلیتے ہیں کیونکہ ان کے اندر حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اس لئے آلام و مصائب سے ڈر کر فرار حاصل کر لیتے ہیں۔
کہنے والوں نے بہت کچھ کہا اور سننے والوں نے معترضین کے اٹھائے ہوئے سوالات کے جوابات بھی دئیے اور اس طرح تصوّف کوایک الجھا ہوامسئلہ بنادیاگیا۔لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اہلِ تصوّف ہر زمانے میں موجود رہے اور انہوں نے روحانی علوم کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ اپنے شاگردوں میں یہ علوم تحریر کے ذریعے،مکتوبات کے ذریعہ کتابوں کے ذریعہ اور علم سینہ کے ذریعے منتقل کرتے رہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 29 تا 29
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔