تصوّف اور سائنس
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19902
روئیس ایک جگہ لکھتا ہے ۔ سب سے زیادہ بہترین انسان جو تجربہ کی بنیاد پر سفر کرتا ہے وہ صوفی ہے۔وہ اپنے تجربات اور واردات کو ہر قسم کے خارجی معیار پر پرکھتا ہے۔ اسکی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ خالص حقیقت تک پہنچ جائے۔
اور اس حقیقت کو عام علمی زبان میں بیان کرسکے۔یعنی اسے بیان کرنے میں استدلال اور مشاہدے کی قوت حاصل ہو۔ سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ کوئی بات اس وقت قابلِ قبول ہے جب اس کے پیچھے دلیل ہو اور وہ بات مشاہدے میں آجائے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلسفہ ،تصوّف اور سائنس کا طریقۂ استدلال ایک ہے۔اب سائنس کا یہ فرض ہے کہ وہ صوفیانہ واردات کا کھوج لگائے۔اور ان تمام مشاہدات کو سائنسی دلیل کے ساتھ پیش کرے۔جو آج تک شخصی او ر ذاتی مشاہدات میں محدود سمجھی جاتی ہے ۔
ولیم جیمز کے نزدیک ہر متصوّفانہ واردات اور تجربہ ناقابلِ بیان ہوتا ہے۔اس تجربہ میں صوفی جن واردات سے گزرتا ہے وہ اسے محسوس تو کرتا ہے اور الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن چونکہ اس کا تعلق محسوساتی دنیا سے نہیں ہوتا اسلئے وہ اسے مادی لباس نہیں پہناسکتا ۔ غور کرنے سے علم حاصل ہوتا ہے کہ صرف متصوّفانہ واردات ہی نہیں ہر جذباتی تجربہ بھی ذاتی ہوتا ہے۔چنانچہ ہر جذباتی تجربہ دوسرے تک منتقل نہیں ہوسکتامثلاً محبت کے جذبات کے بارے میں کسی دوسرے کوسمجھانامحال ہے۔عشق کسی استدلال کا محتاج نہیں ہے اور بطور تجربات اورواردات ایک ذاتی کیفیت ہے جس میں کوئی دوسرا شامل نہیں ہوتا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 26 تا 27
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔