تصوف اور صحابہ کرام
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=759
سوال: روحانیت اور تصوف کے حوالہ سے اولیاء اللہ کی کرامات اور کشف کا تذکرہ بڑی شد و مد سے کیا جاتا ہے جبکہ یہ بات حقیقت ہے کہ حضرات صحابۂ کرام اور صحابیاتؓ امت محمدیہ میں سب سے افضل ہیں۔ اور کوئی ولی رتبہ میں کسی صحابی سے بلند مرتبہ نہیں ہو سکتا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ سے کرامات، کشف اور خرق عادات کا ظہور نہیں ہوا۔ اور اولیاء اللہ سے ہر زمانہ میں کرامات ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔
روحانیت میں مراقبہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ صحابۂ کرامؓ اور صحابیاتؓ نے مراقبے کیوں نہیں کئے؟
درخواست ہے کہ اس سلسلہ میں اسلامی نقطۂ نظر سے حقائق بیان کریں۔
جواب: اللہ کے حبیب رحمت اللعالمین علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’میں چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا تا کہ مخلوق مجھے پہچانے۔‘‘
(حدیث قدسی)
اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنی محبت خاص سے اس لئے پیدا کیا تا کہ مخلوق اسے پہچانے اس سے واقف ہو۔ اس کی کبریائی اور عظمت کا اقرار و اعتراف کرے۔ چونکہ مخلوق میں سب سے افضل تخلیق انسان ہے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنا نائب اورخلیفہ بنایا۔ انسان کی سرکشی اور نافرمانی کے پیش نظر ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث ہوئے۔
امتوں میں سب سے افضل نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت ہے اور اس امت میں سب سے افضل لوگ صحابہ کرامؓ ہیں۔
روحانیت کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کو پہچاننا ہے اس کا عرفان حاصل کرنا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو پہچاننے سے پہلے انسان کو خود کو پہچاننا ضروری ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
’’من عرف نفسہٗ فقد عرفہ ربہٗ‘‘
یعنی جو شخص اپنی ذات کا عرفان حاصل کر لیتا ہے وہ خداوند قدوس کو پہچان لیتا ہے۔
صحابہ کرامؓ کی واردات قلبی اور روحانی کیفیات کے بارے میں ابدال حق، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ لوح و قلم میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’ذات باری تعالیٰ سے نوع انسانی یا نوع اجنہ کا ربط دو طرح پر ہے ایک جذب کہلاتی ہے اور دوسری علم۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں اور قرونِ اولیٰ میں جن لوگوں کو مرتبہ احسان(مرتبہ احسان یہ ہے کہ بندہ یہ محسوس کرے اور دیکھے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ دیکھے اور محسوس کرے کہ وہ بندہ اللہ کو دیکھ رہا ہے) حاصل تھا۔ ان کے لطائف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت سے رنگین تھے۔ انہیں ان دونوں قسم کے ربط کا زیادہ علم نہیں تھا ان کی توجہ زیادہ تر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق غور و فکر میں صرف ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے روحانی قدروں کے جائزے زیادہ نہیں لئے کیونکہ ان کی روحانی تشنگی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقوال پر توجہ صرف کرنے سے رفع ہو جاتی تھی۔ ان کو احادیث میں بہت زیادہ شغف تھا۔ اس انہماک کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کے ذہن میں احادیث کی صحیح ادبیت، ٹھیک ٹھاک مفہوم اور پوری گہرائی موجود تھی۔ احادیث پڑھنے کے بعد اور احادیث سننے کے بعد وہ احادیث کے انوار سے پورا استفادہ کرتے تھے۔ اس طرح انہیں الفاظ کے نوری تمثلات کی تلاش کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہ الفاظ کے نوری تمثلات سے بغیر کسی تعلیم اور بغیر کسی کوشش کے روشناس تھے۔ مجھے عالم بالا کی طرف رجوع کرنے کے مواقع حاصل ہوئے تو میں نے دیکھا کہ صحابۂ کرام کی ارواح میں ان کے ’’عین‘‘ قرآن پاک کے انواراور احادیث کے انوار یعنی نور قدس اور نور نبوت سے لبریز ہیں۔ جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ ان کو لطائف کے رنگین کرنے میں جدوجہد نہیں کرناپڑتی تھی اس دور میں روحانی قدروں کا ذکر و فکر نہ ہونا اس قسم کی چیزوں کے تذکروں میں نہ پایا جانا غالباً اس ہی وجہ سے ہے۔‘‘
ابدال حق حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ صحابۂ کرامؓ کے دور میں پچیس(۲۵) فیصد لوگ روحانی ہوتے تھے جبکہ قحط الرجال کے اس دور میں گیارہ(۱۱) لاکھ آدمیوں میں ایک آدمی پوری طرح روحانی صلاحیتوں سے واقف ہوتا ہے۔
عام طور سے لوگ کرامات کو ہی روحانیت سمجھتے ہیں جبکہ یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ جس شخص سے خرق عادت کا ظہور ہو وہ ہی روحانی آدمی سمجھا جاتا ہے۔ خرق عادات اور کرامات غیر مسلم حضرات سے بھی صادر ہوتی ہیں۔
عامتہ المسلمین کے ذہنوں سے یہ غلط فہمی دور کرنے کے لئے صحابۂ کرامؓ سے کرامات ظہور نہیں ہوئیں۔ اسلام کی مستند کتابوں سے صحابہ کرامؓ کی کرامات درج کی جا رہی ہیں۔
حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ
امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ نے جناب عائشہ کو بیس و سق تقریباً پانچ من کھجوریں ہبہ کی تھیں اور اپنی وفات سے پہلے ہی فرمایا۔ اے میری بیٹی! مال و دولت کے باب میں مجھے تم سے زیادہ کوئی پیارا نہیں اور مجھے تمہاری حاجت مندی بھی پسند ہے۔
لاریب بیس و سق کھجوریں میں نے تمہیں ہبہ کی تھیں۔ اگر تم نے انہیں توڑ کر اکٹھا کر لیا ہوتا تو وہ تمہاری مملوکہ ہو جاتیں لیکن اب وہ تمام وارثوں کا مال ہے۔ جس میں تمہارے دو بھائی اور تمہاری دو بہنیں شریک ہیں۔ بس اس کو قرآن کریم کے احکام کے موافق تقسیم کر لو۔ جس پر حضرت عائشہؓ نے کہا۔ ابا جان! اگر بہت زیادہ بھی ہوتیں تب بھی اس ہبہ سے دستبردار ہو جاتی لیکن یہ تو فرمایئے کہ میری بہن تو صرف ’’اسما‘‘ ہے یہ دوسری بہن کون ہے؟ حضرت صدیق اکبرؓ نے جواب دیا کہ بنت خارجہ کے پیٹ میں مجھے لڑکی دکھائی دے رہی ہے۔
اس واقعہ کو ابن سعدؓ نے اس طرح روایت کیا ہے کہ بنت خارجہ کے پیٹ کی لڑکی کو میرے دل میں القاء کیا گیا ہے۔ یعنی میری بیوی بنت خارجہ کے پیٹ میں لڑکی ہے۔ بالآخر جناب ام کلثوم پیدا ہوئیں۔
کرامت فاروق اعظم سیدنا عمر بن الخطابؓ
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ فاروق اعظمؓ نے جناب ساریہ کی قیادت میں جہاد کی غرض سے ایک لشکر روانہ فرمایا تھا۔ حضرت فاروق اعظمؓ ایک دن خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اسی خطبہ کے دوران میں فرمانے لگے اے ساریہ! پہاڑ کی طرف ہٹ جا۔ آپ نے تین دفعہ اسی طرح فرمایا کیونکہ پہاڑ کی طرف ہٹ جانے سے مسلمانوں کے غالب ہو جانے کی امید تھی جب تھوڑے دنوں بعد اس فوج کا قاصد آیا تو فاروق اعظمؓ نے اس سے لڑائی کا حال پوچھا۔ قاصد نے عرض کیا۔ اے امیر المومنین! ایک دن شکست کھانے ہی والے تھے کہ ہمیں ایک آواز سنائی دی جیسے کوئی پکار کر کہہ رہا ہے کہ اے ساریہ پہاڑ کی طرف ہٹ جا۔ اس آواز کو ہم نے تین مرتبہ سنا اور ہم نے پہاڑ کی طرف پیٹھ کر کے سہارا لیا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کو شکست فاش دی۔ حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ لوگوں نے فاروق اعظمؓ سے کہا۔ جبھی تو آپ جمعہ کے دن خطبہ کے درمیان بار بار پکار رہے تھے۔ یہ پہاڑ جہاں ساریہ اور ان کی فوج تھی مشرق کے شہر نہاوند میں تھا۔
کرامت حضرت سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورینؓ
حضرت عثمان ذی النورینؓ کے آزاد کردہ غلام محجن کہتے ہیں کہ ایک دن میں آپ کے ساتھ آپ کی ایک زمین پر گیا جہاں ایک عورت نے جو کسی تکلیف میں مبتلا تھی آپ کے پاس آ کر عرض کیا۔ اے امیر المومنین! مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے۔ اس پر آپ نے مجھے حکم دیا کہ اس عورت کو نکال دو چنانچہ میں نے اس کو بھگا دیا۔ تھوڑی دیر بعد اس عورت نے آ کر پھر اسی غلطی کا اعتراف کیا۔ چنانچہ سرکار کے فرمانے پر کہ اے محجن اسے باہر نکال دو۔ میں نے دور بھگا دیا۔ اور تیسری مرتبہ اس عورت نے پھر آ کر کہا کہ اے خلیفہ وقت میں نے بلاشک و شبہ گناہ کبیرہ کیا ہے۔ میرے اوپر حد زنا جاری فرما دی جائے۔ اس پر میرے آقا حضرت عثمانؓ نے ارشاد فرمایا۔ ادنا واقف محجن! اس عورت پر مصیبت آ پڑی ہے اور مصیبت و تکلیف ہمیشہ شر و فساد کا سبب ہوتی ہے۔ تم جاؤ اور اس کو اپنے ساتھ لے جا کر اس کو پیٹ بھر کر روٹی اور تن بھر کپڑا دو۔ اس دیوانی کو میں اپنے ساتھ لے گیا اور اس کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جو میرے آقا نے فرمایا تھا یعنی میں نے آرام سے رکھا۔ تھوڑے دنوں بعد جب اس کے ہوش و حواس ٹھکانے لگے اور وہ مطمئن ہو گئی۔ تب آپؓ نے فرمایا کہ اچھا اب کھجور، آٹا اور کشمش سے ایک گدھا بھر کر کل اس کو جنگل کے باشندوں کے پاس لے جاؤ اور ان بادیہ نشینوں سے کہو کہ اس عورت کو اس کنبہ والوں اور اہل و عیال کے پاس پہنچا دیں۔ چنانچہ میں کھجوروں، کشمش اور آٹے سے بھرے ہوئے گدھے کو لے کر اس کے ساتھ روانہ ہوا۔ میں نے رستہ میں چلتے چلتے کہا کہ اب بھی تم اس بات کا اقرار کرتی ہو جس کا تم نے امیر المومنین کے سامنے اقرار کیا تھا وہ کہنے لگی، نہیں ہرگز نہیں۔ کیونکہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ صرف تکلیفوں اور مصیبتوں کے پہاڑ پھٹ پڑنے سے کہا تھا تا کہ حد لگا دی جائے اور مجھے مصیبتوں سے نجات مل جائے۔
کرامت سیدنا حضرت علی ابن ابی طالبؓ
حضرت ابو رافع روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالمﷺ نے جب حضرت علیؓ کو جھنڈا دے کر خیبر کی طرف روانہ کیا تو ہم بھی ان کے ساتھ تھے جب ہم قلعہ خیبر کے پاس پہنچے جو مدینہ منورہ کے قریب ہے تو خیبر والے آپؓ پر ٹوٹ پڑے۔ آپؓ نے کشتوں کے پشتے لگا دیئے تھے کہ آپؓ پر ایک یہودی نے وار کر کے آپؓ کے ہاتھ سے آپ کی ڈھال گرا دی۔ اس پر جناب حیدر کرارؓ نے قلعہ کے ایک دروازہ کو اکھیڑ کر اپنی ڈھال بنا لیا اور اس کو ڈھال کی حیثیت سے اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے شریک جنگ رہے۔ بالآخر دشمنوں پر فتح حاصل ہو جانے کے بعد اس ڈھال نما دروازہ کو اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔ اس سفر میں میرے ساتھ سات آدمی اور بھی تھے اور ہم آٹھ آدمی مل کر اس دروازے کو الٹ دینے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن وہ دروازہ جس کو تن تنہا حیدر کرارؓ نے اپنے ایک ہاتھ میں اٹھا لیا تھا اس کو ہم آٹھوں آدمی کوشش کے باوجود پلٹ تک نہ سکے۔
کرامت حضرت انسؓ
حضرت انس بن نضرؓ جو حضرت انس بن مالک کے بھتیجے تھے، روایت کرتے ہیں کہ ان کی پھوپھی نے کسی لڑکی کا اگلا دانت توڑ دیا تھا۔ ہمارے خاندان کے لوگوں نے لڑکی کے رشتہ داروں سے معافی مانگی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ پھر ان سے کہا گیا کہ تم لوگ دیت یعنی دانت کے بدلے دانت لینے کے بجائے کچھ رقم لے لو اس پر بھی ان لوگوں نے انکار کیا۔ اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی دینے اور دیت قبول کرنے پر انکار کرتے ہوئے قصاص طلب کیا۔ چنانچہ بحکم قرآن کریم سرور عالمﷺ نے قصاص کا حکم صادر فرما دیا۔ اس پر حضرت انس بن نضرؓ نے کہا۔ یا رسول عالمﷺ! کیا میری پھوپھی حضرت ربیع کا اگلا دانت توڑ دیا جائے گا۔ اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ۔ ان کا دانت توڑا نہیں جائے گا۔ اس پر سرور دو عالمﷺ نے فرمایا۔ اے انس! اللہ کی کتاب تو قصاص کا حکم دیتی ہے اس پر ان لوگوں نے خوش ہو کر دانت کا بدلہ معاف کر دیا۔
سرور عالمﷺ نے فرمایا۔ بیشک بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا فرماتا ہے۔
کرامت حضرت سعد بن ابی وقاصؓ
امام بخاریؒ ایک طویل قصے میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے فرمایا۔ اللہ کی قسم میں اس شخص (ابو سعدہ) کے لئے بددعا کرتا ہوں، جس نے میری تین جھوٹی شکائتیں کی تھیں۔ اے اللہ! یہ تیرا جھوٹا بندہ جو مکاری سے شکائتیں سنانے کے لئے کھڑا ہوا ہے۔ اس کی عمر دراز کر دے اس کی محتاجی میں اضافہ کر دے اور اس کو اتنہ و فساد میں مبتلا کر دے۔ حضرت سعد کی اس دعا کے بعد لوگوں نے اسے دیکھا کہ جب اس سے خیریت دریافت کی جاتی تو وہ بوڑھا پھونس جواب دیا ۔ میں بالکل بڈھا ہو گیا ہوں، میری عقل ماری گئی ہے اور سعدؓ کی بددعا لگ گئی ہے۔ حضرت عبدالمالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس بڈھے کو اس حال میں دیکھا کہ بڑھاپے کی وجہ سے اس کی آنکھوں کواس کی دونوں بھنوؤں نے بالکل چھپا لیا تھا اور وہ رستہ چلتی لونڈیوں، باندیوں کو روکتا تھا اور اتنا بے حیا ہو گیا تھا کہ رستہ ہی میں چھیڑ چھاڑ کرتا تھا۔ افلاس و غربت کی وجہ سے انتہائی تنگدست تھا۔ الحاصل حضرت سعدؓ کی یہ تینوں باتیں درازی عمر، افلاس اور فتنہ میں مبتلا ہونا درگاہ خداوندی میں مقبول ہوئیں۔
کرامت حضرت حنظلہؓ
حضرت حنظلہؓ بن عامر نے جمیلہ دختر عبداللہ بن ابی سلولؓ سے شادی کی اور سرکار دو عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اجازت لے کر جنگ اُحد کی رات اپنی بیوی کے ساتھ رہے، غسل کی حاجت تھی اسی حالت میں صبح سویرے ہتھیار لگا کر مسلمانوں کی فوج میں پہنچ گئے۔ حضرت حنظلہؓ نے فوج میں آتے ہی دل کھول کر ہاتھ دکھائے جس کے نتیجہ میں مشرکین کو شکست نظر آ رہی تھی اور انہوں نے ابو سفیان کو جواب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے مارنا ہی چاہا تھا کہ پیچھے سے اسود بن شعیب نے حملہ کر کے حنظلہؓ کو ایسا برچھا مارا کہ وہ شہید ہو گئے۔ رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ حنظلہؓ بن عامر کو چاندی کے ٹب میں بارش کے پانی سے خلاء میں نہلا رہے ہیں۔ ابو اسید ساعدیؓ نے کہا کہ ہم نے حنظلہؓ کو دیکھا کہ ان کے بالوں سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھیں اور یہ دیکھ میں فوراً سرور عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضری ہو کر تمام واقعہ سنایا۔ اس پر سرور عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی بیوی کے پاس ایک قاصد بھیجا کہ حضرت حنظلہؓ کے بارے میں معلومات حاصل کرے چنانچہ اس قاصد سے جناب جمیلہ نے کہا کہ وہ جہاد کے میدان میں گھر سے جب گئے تو انہیں غسل کی ضرورت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے حنظلہؓ کو غسل دلایا۔ حضرت حنظلہؓ شہید کے سر کے بالوں سے پانی کی بوندیں ٹپکتے ہوئے رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ اور لوگوں نے بھی دیکھیں۔
کرامت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے بروایت امام بخاریؒ مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم کئی صحابی کھانا کھا رہے تھے۔ ہم نے سنا کہ وہ غذا اللہ تبارک و تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہی تھی یعنی وہ کھانا سبحان اللہ، سبحان اللہ پڑھ رہا تھا۔
کرامت حضرت اسید بن حفیر و عباد بن بشرؓ
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالمﷺ سے جنات اُسید و عباد نے اپنی کچھ ضرورتیں ظاہر کیں جس میں کچھ رات ہو گئی۔ رات بہت تاریک تھی چنانچہ وہ اسی اندھیرے میں اپنے گھروں کو لوٹے ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔ ان میں سے ایک لاٹھی روشن ہو گئی اور لالٹین کا کام دینے لگی۔ جس کی روشنی کی مدد سے دونوں چلنے لگے۔ جب ایک کا راستہ ختم ہو گیا اور دوسرے کو آگے جانا تھا تو دوسرے کی لاٹھی بھی روشن ہو گئی اور دوسرا بھی اپنے گھر روانہ ہو گیا اور یہ دونوں اپنی اپنی لاٹھی کی روشنی میں اپنے اپنے گھر پہنچ گئے۔
کرامت والد حضرت جابرؓ
حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ جنگ اُحد کے وقت ایک رات مجھے میرے والد نے طبٹ کر کے فرمایا، کل اصحاب رسولﷺ کی شہادت میں سب سے اول میری شہادت واقع ہو گی۔ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ تم مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو۔ مجھ پر ایک آدمی کا قرضہ ہے وہ ادا کر دینا اور میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اپنی بہنوں کے ساتھ بھلائی کرنا، صبح کو میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے میرے والد ہی نے جام شہادت نوش فرمایا۔
کرامت حضرت سفینہؓ
ابن منکدر سے روایت ہے کہ حضرت سفینہؓ جو رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلام تھے ایک مرتبہ سر زمین روم میں اپنے اسلامی لشکر کا راستہ بھول گئے۔ وہ راستہ تلاش کر رہے تھے کہ دشمنان اسلام نے انہیں گرفتار کر لیا۔ ایک دن قید سے بھاگ کر راستہ تلاش کر رہے تھے کہ ان کی ایک شیر سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ چنانچہ حضرت سفینہؓ نے اس شیر کو کنیت سے پکار کر کہا: اے ابوالحارث! سن میں رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا غلام ہوں اور میں راستہ بھول گیا ہوں۔ جنگل کا شیر یہ سن کر ان کے سامنے کھڑے ہو کر دم ہلانے لگا۔ اور پھر ان کے برابر چلنے لگا۔ اسے جب کوئی آواز سنائی دیتی تو وہ فوراً ادھر کا رخ کر لیتا اور پھر آپ کے ساتھ بغل میں چلنے لگتا۔ جب حضرت سفینہؓ اپنے اسلامی لشکر میں پہنچ گئے تو شیر واپس لوٹ گیا۔
کرامت حضرت ابو ہریرہؓ
حضرت ابو ہریرہؓ ایک طویل قصہ کے ماتحت کہتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھ سے پوچھا۔ تمہارے قیدی کا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور اس کا ارادہ ہے کہ مجھے ایسی باتیں سکھائے گا جن سے مجھے فائدے ہونگے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو جو کچھ اس نے کہا وہ ٹھیک ہے لیکن تین راتوں سے تم جس سے باتیں کر رہے ہو جانتے ہو وہ کون ہے؟
میں نے عرض کیا۔ حضورﷺ میں اس حقیقت کو نہیں جانتا۔ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا وہ مردود شیطان ہے۔
کرامت حضرت ربیعؓ
حضرت ربعیؓ بن حراش کہتے ہیں کہ ہم چار بھائی تھے اور ہمارے بڑے بھائی حضرت ربیعؓ پکے نمازی اور بڑے روزے دار تھے۔
سردیوں گرمیوں میں بھی وہ نفلیں پڑھتے اور روزے رکھتے تھے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو ہم سب ان کے پاس اکٹھے تھے اور ہم ان کے لئے کفن کا کپڑا لینے بھیج چکے تھے کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے منہ سے کپڑا ہٹا کر کہا کہ السلام علیکم اے برادران عبس۔
لوگوں نے جواب دیا ،وعلیکم السلام۔ اور کہا: کیا موت کے بعد بھی تم بات چیت کرتے ہو؟ حضرت ربیعؓ نے جواب دیا۔ ہاں، تم سے جدا ہو کر جب پروردگار عالم سے ملا تو میں نے اسے غضبناک نہیں دیکھا اس نے مجھ پر رحمتوں کے بادل برسا کر جنت کی خوشبوئیں، جنت کی روزی، جنت کے لباس، دبیز ریشمی کپڑے مرحمت فرمائے۔ سنو حضرت ابوالقاسم! رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام میری نماز پڑھانے کے منتظر ہیں بس اب دیر مت لگاؤ اور جلدی کرو۔ اس کے بعد وہ اس طرح ہو گئے جیسے کسی طشت میں ایک کنکری گر جائے۔ پھر ان کے کفن دفن کا انتظام کیا گیا۔
یہ قصہ جب حضرت عائشہؓ صدیقہ کو سنای گیا تو آپؓ نے فرمایا۔ مجھے یاد ہے، ایک دفعہ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ میری امت میں ایسے آدمی ہیں جو مرنے کے بعد بھی گفتگو کرتے ہیں۔
کرامت حضرت علاء بن حضرمیؒ
سہم بن منجانب نے بیان کیا ہے کہ ہم علاء بن حضرمیؓ کے ساتھ جہاد کیلئے روانہ ہوکر مقام دارین پہنچے۔ ہندوستانی مشک اور کستوری کی بحرین میں بہت بڑی منڈی ہے اور سمندر کے ساحل پر واقع ہے چنانچہ حضرت علاء بن حضرمیؓ نے سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر کہا:
’’اے اللہ! تو جاننے والا تو قوت والا ہے تو بہت بڑا ہے۔ ہم تیرے معمولی بندے یہاں کھڑے ہوتے ہیں اور اسلام کا دشمن سمندر کے اس سرے پر ہے۔ اللہ ان کو شکست دینے کے لئے ان کو راہ راست پر لانے کے لئے اور ان کو اسلام کا کلمہ پڑھانے کے لئے ہم کو ان تک پہنچا دے۔‘‘
اس دعا کے بعد انہوں نے ہم کو سمندر میں اتار دیا۔ سمندر کا پانی ہمارے گھوڑوں کے سینوں تک بھی نہیں پہنچا اور ہم نے سمندر پار ہو کر اسلام کے دشمنوں سے جہاد کیا۔
کرامت حضرت اسامہ بن زیدؓ
حضرت اسامہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا۔
کرامت حضرت بلال بن حارثؓ
حضرت بلال بن حارثؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم لوگ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شریک سفر تھے۔ مکہ معظمہ کے راستے میں بمقام ’’عروج‘‘ پڑاؤ ڈالا اور الگ الگ خیمے نصب کئے گئے۔
میں اپنے لشکر سے نکل کر سرکار دو عالمﷺ سے ملاقات و مزاج پرسی کے لئے جب لشکر کے خیمہ میں پہنچا تو آپﷺ وہاں سے دور سامنے جنگل میں تنہا تشریف فرما تھے۔ میں لپکتا ہوا جب قریب پہنچا تو شور و غوغا کی آواز میرے کانوں میں آئی۔ بس میں سمجھ گیا کہ مردان غیب کا ہجوم ہے اور اس میں وہیں دور ٹھہر گیا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ بہت سے آدمی اونچی آواز میں باتیں کر رہے ہیں اور جھگڑا ہو رہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام مسکراتے ہوئے میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے وہیں جنگل میں عرض کیا: یا رسول اللہﷺ یہ کیسا شور تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: مسلمان جنوں اور کافر جنوں میں رہائش کے لئے نزاع تھا۔ میں نے ان لوگوں کا مقدمہ سن کر یہ فیصلہ کر دیا کہ مسلمان جن ’’حبش‘‘ میں اور کافر جن ’’غور‘‘ میں سکونت اختیار کریں اور آپس میں ہرگز نہ ملیں۔ اس پر وہ راضی ہو گئے اور چلے گئے۔
کرامت حضرت سلمانؓ و ابودرداءؓ
حضرت سلمانؓ اور حضرت ابودرداءؓ بیٹھے ہوئے تھے اور دونوں کے سامنے ایک پیالہ رکھا ہوا تھا جو ’’سبحان اللہ‘‘ پڑھ رہا تھا۔
کرامت ام المومنین حضرت عائشہؓ
ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں سخت قحط پڑا۔ ان قحط زدہ لوگوں نے حضرت عائشہؓ صدیقہ سے جا کر کہا کہ اس قحط سے ہم لوگ بہت پریشان ہو گئے ہیں۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار مبارک کی طرف اور گنبد خضرا میں آسمان کی طرف کو ایک آر پار سوراخ کر دو تا کہ دونوں کے بیچ میں کوئی چیز حائل نہ رہے۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا خوب بارش ہوئی۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دن فرمایا:
’’اے عائشہؓ! یہ جبریلؑ تم کو سلام کر رہے ہیں‘‘۔ میں نے جواباً کہا ان پر اللہ کی سلامتی، رحمتیں اور برکتیں ہوں۔
کرامت حضرت خدیجۃ الکبرىؓ
ایک بار حضرت سرور عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جبریلؑ نے مجھ سے آ کر کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ کے پاس بی بی خدیجہؓ آ رہی ہیں اور ان کے ہاتھ میں جو برتن ہے اس میں سالن کھانے کی چیز اور پینے کی چیز ہے۔ جب وہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہہ دیجئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام کہا ہے۔ اور یہ کہہ دیجئے کہ آپ خوش ہو جایئے آپ کے لئے جنت میں ایسا مکان ہے جو موتیوں کا بنا ہوا ہے۔ جہاں کوئی شور و غل نہیں ہے اور کوئی تکلیف نہیں ہے۔
کرامت حضرت بی بی فاطمتہ الزہراؓ
حضر ت سلمیؓ نے بیان کیا ہے کہ حضرت فاطمہؓ بیمار تھیں اور میں تیمار دار تھی۔ ایک دن صبح سویرے انہیں افاقہ محسوس ہوا۔ حضرت علیؓ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ حضرت فاطمہؓ نے کہا۔ اے اماں! میں نہانا چاہتی ہوں۔ میں نے پانی تیار کر دیا اور جس طرح وہ تندرستی میں نہاتی تھیں ویسے ہی خوب نہائیں پھر انہوں نے نئے کپڑے مانگے۔ میں نے ان کو کپڑے بھی دے دیئے۔ انہوں نے خود پہن کر کہا: امی اب ذرا آپ میرے لئے گھر کے بیچوں بیچ بچھونا بچھا دیجئے۔ میں نے یہ بھی کر دیا۔ بس وہ بستر پر جا کر لیٹیں اور قبلہ کی طرف منہ کر کے اپنا ایک ہاتھ اپنے گال کے نیچے رکھ کر کہا۔ اے امی جان! اب میں اللہ تعالیٰ سے ملنے جا رہی ہوں اور بالکل پاک ہوں۔ اب کوئی بلا ضرورت مجھے کھولے نہیں۔ اس کے بعد ان کی روح پرواز کر گئی۔ حضرت علیؓ کے آنے کے بعد پورا واقعہ میں نے ان کے گوش گزار کیا۔
مندرجہ بالا واقعات و کرامات بہت ہی اختصار کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔ ورنہ ہر صحابی کی زندگی میں بے شمار خرق عادت موجود ہیں بلکہ بعض صحابۂ کرام کی پوری زندگی کرامت اور خرق عادت تھی۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے ارشاد کے مطابق صحابہ کرامؓ کو ان طرزوں کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ صحابہ کرامؓ حقیقت میں عشق الٰہی اور عشق رسولﷺ میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ انہیں خرق عادات یا کرامات کو جمع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔
روحانیت اور تصوف کے بارے میں یہ کہنا کہ جب صحابہ کرامؓ سے کرامات ظاہر نہیں ہوئیں تو اولیاء اللہ سے کس طرح کرامات ظاہر ہو سکتی ہیں؟ محض غلط فہمی ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی اور صحابیات کی کرامات اور خرق عادات کا اسلامی تاریخ میں ریکارڈ موجود ہے۔ مراقبہ دراصل ذہنی یکسوئی کے ساتھ اپنی روحانی صلاحیتوں اور غیب بین نظر کو بیدار اور محرک کرنے کے لئے ایک طریقہ اور ایک راستہ ہے۔ مراقبہ سے مراد مرتبہ احسان ہے۔ مراقبہ کے ذریعہ جب آدمی کے اندر روحانی آنکھ کھل جاتی ہے تو اسے مرتبہ احسان حاصل ہو جاتا ہے۔ مرتبہ احسان یہ ہے کہ بندہ یہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ اسے اللہ دیکھ رہا ہے اور مرتبہ احسان یہ ہے کہ بندہ یہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔
یاد رکھیئے! نور نبوت کے ذریعہ صحابہ کرام اور صحابیاتؓ کا مرتبہ احسان حاصل تھا اور مرتبہ احسان کا حاصل ہونا بلاشبہ روحانیت ہے۔ مرتبہ احسان میں آدمی کے اندر روحانی صلاحیتیں متحرک اور روح کی آنکھ بیدار ہو جاتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 148 تا 162
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔