تصور کیا ہے
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=756
سوال: مراقبہ کی مشق تلقین کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ فلاں تصور کیا جائے مثلاً دل کے اندر جھانکنے کو کہا جاتا ہے یا یہ بتایا جاتا ہے کہ آنکھیں بند کر کے روشنی اور نور کا تصور کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ کیا اس تصور سے مراد ہے کہ ہم اپنی بند آنکھوں کے سامنے ذوق و شوق پر قائم ہے۔ دلچسپ مضمون پڑھنے کی مثال دی جا چکی ہے۔
جواب: تصور کیا جا رہا ہو تو نور کو دیکھنے کی کوشش نہ کریں بلکہ صرف نور کا خیال کریں۔ نور جو کچھ بھی ہے اور جس طرح بھی ہے از خود سامنے آئے گا۔ اصل مدعا کسی ایک طرف دھیان کر کے ذہنی یک سوئی حاصل کرنا اور منتشر خیالی سے نجات پانا ہے۔ اس کے بعد باطنی کم کڑی در کڑی از خود ذہن پر منکشف ہونے لگتا ہے۔ تصور کا مطلب اس بات سے کافی حد تک پورا ہوتا ہے۔ جس کو عرف عام میں ’’بے خیال ہونا‘‘ کہا جاتا ہے۔
اگر ہم کھلی یا بند آنکھوں سے کسی چیز کا تصور کرتے ہیں اور تصور میں خیالی تصویر بنا کر اسے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ عمل ذہنی یک سوئی کے دائرے میں نہیں آتا۔ ذہنی یکسوئی سے یہ مراد ہے کہ آدمی شعوری طور پر دیکھنے اور سننے کے عمل سے بے خبر ہو جائے۔
قانون یہ ہے کہ آدمی کسی لمحے بھی حواس سے آزاد نہیں ہوتا۔ جب ہمارے اوپر شعوری حواس کا غلبہ نہیں رہتا تو لازمی طور پر لاشعوری حواس متحرک ہو جاتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 143 تا 143
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔