تصور سے کیا مراد ہے؟
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=192
سوال: تصور سے کیا مراد ہے، تصور کی صحیح تعریف کیا ہے؟
جواب: روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب ہم کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ چیز یا اس کے اندر معنویت ہمارے اوپر ظاہر ہو جاتی ہے۔ کوئی چیز ہمارے سامنے ہے لیکن ذہنی طور پر ہم اس کی طرف متوجہ نہیں تو وہ چیز بسا اوقات ہمارے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہم گھر سے دفتر جانے کیلئے راستے اختیار کرتے ہیں۔ جب ہم گھر سے روانہ ہوتے ہیں تو ہمارے ذہن کی مرکزیت صرف دفتر ہوتا ہے یعنی یہ کہ ہمیں مقررہ وقت پر دفتر پہنچنا ہے اور وہاں پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ اب راستے میں بے شمار مختلف النوع چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں اور انہیں ہم دیکھتے ہیں لیکن دفتر پہنچنے کے بعد کوئی صاحب اگر ہم سے سوال کریں کہ راستے میں آپ نے کیا کچھ دیکھا تو اس بات کا ہمارے پاس ایک ہی جواب ہو گا کہ ہم نے دھیان نہیں دیا ۔ حالانکہ سب چیزیں نظروں کے سامنے سے گزریں لیکن کسی بھی چیز میں ذہنی مرکزیت قائم نہ تھی۔ اس لئے حافظہ پر اس کا نقش مرتب نہ ہو سکا۔ آپ ایک ایسی کتاب پڑھتے ہیں جس کا مضمون آپ کی دلچسپی کے برعکس ہے تو پانچ دس منٹ کے بعد ہی طبیعت پر بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے اور بالآخر کتاب چھوڑ دیتے ہیں۔ اس مثال سے دوسرا قانون یہ بنا کہ ذہنی مرکزیت کے ساتھ ساتھ اگر دلچسپی قائم ہو تو کام آسان ہو جاتا ہے۔ جہاں تک دلچسپی کا تعلق ہے اس کی حدود اگر متعین کی جائیں تو دو رخ پر متعین ہوں جس کی عرف عام میں ذوق و شوق کہا جاتا ہے یعنی ایک طرف کسی چیز کی معنویت کو تلاش کرنے کی جستجو ہے اور دوسری طرف اس جستجو کے نتیجے میں کوئی چیز حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ ذوق و جستجو کے بعد جب کوئی بندہ کسی راستے کو اختیار کرتا ہے تو وہ راستہ دین کا ہو یا دنیا کا اس کے مثبت نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
تصور کا منشا یہی ہے کہ آدمی ذوق و شوق کے ساتھ ذہنی مرکزیت اور اس کے نتیجے میں باطنی علم حاصل کرے۔
تصور کی مشقوں سے بھرپور فوائد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صاحب مشق جب آنکھیں بند کر کے تصور کرے تو اسے خود سے اور ماحول سے بے نیاز ہو جانا چاہئے، اتنا بے نیاز کہ اس کے اوپر بتدریج ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹنے لگے یعنی اس تصور میں اتنا منہمک ہو جائے کہ گزرے ہوئے وقت کا مطلق احساس نہ ہو۔ کتاب کا دلچسپ مضمون پڑھنے کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔
تصور کے ضمن میں اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اگر آپ نور یا روشنی کا تصور کر رہے ہیں تو آنکھیں بند کر کے کسی خاص قسم کی روشنی کو دیکھنے کی کوشش نہ کریں بلکہ صرف نور کی طرف دھیان دیں۔ نور جو کچھ بھی ہے اور جس طرح بھی ہے از خود آپ کے سامنے آ جائے گا۔ اصل مدعا کسی ایک طرف دھیان کر کے ذہنی سکون حاصل کرنا اور منتشر خیالات سے نجات حاصل کرنا ہے جس کے بعد باطنی علم کڑی در کڑی ذہن پر منکشف ہونے لگتا ہے۔ تصور کا مطلب اس بات سے کافی حد تک پورا ہو جاتا ہے، جس کو عرف عام میں “بے خیال‘‘ ہونا کہتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 15 تا 16
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔