تصرف کی تین قسمیں ہیں
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=22143
۱) معجزہ
۲) کرامت
۳) استدراج
یہاں تینوں کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ استدراج وہ علم ہے جو اعراف کی بری روحوں یا شیطان پرست جنات کے زیر سایہ کسی آدمی میں خاص وجوہ کی بناء پر پرورش پاجاتا ہے۔ صاحب استدراج کواﷲ کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی، علم استدراج اور علم نبوت میں یہی فرق ہے کہ استدراج کا علم غیب بینی تک محدود رہتا ہے اور علم نبوت انسان کو غیب بینی کی حدودوں سے گزار کر اﷲ کی معرفت تک پہنچا دیتا ہے۔ علم نبوت کے زیر اثر کوئی خارق عادت بنی سے صادر ہوتی ہے تو اس کو معجزہ کہتے ہیں ، ختم نبوت ورسالت کے بعد یہ وراثت اولیاء اﷲ کو منتقل ہوئی اور اولیاء اﷲ سے صادر ہونیوالی خارق عادات کرامت کہلائی۔ لیکن یہ بھی علم نبوت کے زیر اثر ہوتی ہے، معجزہ اور کرامت کا تصرف مستقل ہوتا ہے، مستقل سے مراد یہ ہے کہ جب تک صاحب تصرف اس چیز کو خود نہ ہٹائے وہ نہیں ہٹے گی استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے وہ مستقل نہیں ہوتا اور اس کا اثر فضا کے تاثرات بدلنے سے خودبخود ضائع ہوجاتاہے، استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے اس کو جادو کہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال حضورعلیہ الصلوٰۃو السلام کے دور میں بھی پیش آئی ہے۔
اس دور میں صاف ابن صیاد نام کاایک لڑکامدینے کے قریب کسی باغ میں رہتا تھا۔ موقع پا کر شیطان کے شاگردوں نے اسے اچک لیا اور اس کی چھٹی حس کو بیدار کر دیا۔ وہ چا در اوڑھ کر آنکھیں بند کر لیتا اور ملائکہ کی سرگرمیوں کو دیکھتا اور سنتا رہتا۔ وہ سرگرمیاں عوام میں بیان کر دیتا۔
جب حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس کی شہرت سنی تو ایک روز حضرت عمر فاروق رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے فرمایا۔
’’آؤ،ذرا ابن ِصیا د کودیکھیں!‘‘
اس وقت وہ مدینے کے قریب ایک سرخ ٹیلے پر کھیل رہا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس سے سوال کیا۔ ’’ بتا!میں کون ہوں؟‘‘
وہ رکا اور سوچنے لگا۔پھر بولا۔
’’آپ امیوں کے رسول ہیں لیکن آپ کہتے ہیں کہ میں خدا کا رسول ہوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا۔
’’تیرا علم ناقص ہے، تو شک میں پڑ گیا۔ اچھا بتا!۔۔۔میرے دل میں کیا ہے؟‘‘
اس نے کہا۔
’’دخ ہے۔‘‘(ایمان نہ لانے والا)یعنی آپؐ میرے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ میں ایمان نہ لاؤں گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا۔
’’پھر تیرا علم محدود ہے۔ تو ترقی نہیں کر سکتا۔ تو اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے۔‘‘
حضرت عمر ؓنے فرمایا۔
’’یا رسولؐ اﷲ!اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جواب دیا۔
’’اے عمر! اگر یہ دجال ہے تو اس پر تم قابو نہیں پا سکو گے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا قتل زائد ہے۔ اس کو چھوڑدو۔‘‘
ابنِ صیاد کی طرح کسی بھی صاحب استدراج کو اﷲتعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔ علم استدراج اور علم نبوت میں یہی فرق ہے کہ استدراج کا علم غیب بینی تک محدود رہتا ہے اور علم نبوت انسان کو غیب بینی کی حدوں سے گزار کراﷲتعالیٰ کی معرفت تک پہنچا دیتا ہے۔نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے دست ِ مبارک میں کنکریوں نے تسبیح پڑھی۔ اوران کنکریوں کی آوازحضرت ابوبکر صدیق ؓ حضرت عمر ؓاور حضرت عثمان غنی ؓ نے بھی سنی ۔ آج کے سائنسی دورمیں اس معجزہ کی سائنسی تشریح پیش کرنا ہمارے پیش نظر ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 131 تا 133
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔